مرزائیت کا احتساب

Thursday, June 25, 2015

” قیامت کے دن تک دجال کے فتنہ سے عظیم فتنہ نہ واقع ہوا ہے اور نہ ہوگا “۔

                                                                                 
آج ہم قیامت کی ایک عظیم اور ہولناک نشانی کا ذکر کریں گے جس سے نوح علیہ السلام کے بعد سارے انبیاء کرام نے اپنی قوموں کو ڈرایا، اس کے ظاہری صفات کو بیان کیا، اور اس سے بچنے کی تاکید کی، کیا آپ جانتے ہیں وہ کیا ہے؟ جی ہاں وہ دراصل دجال کا ظہور ہے جسے اللہ رب العالمین انسانوں کی آزمائش کے لیے بھیجے گا، جس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں، جس سے عظیم کو ئی آزمائش نہیں، امام حاکم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
  ما كانت فتنةٌ ولا تكون حتى تقومَ الساعةُ أعظم من فتنةِ الدجالِ (الألباني السلسلہ الصحیحہ: 3081)
”  قیامت کے دن تک دجال کے فتنہ سے عظیم فتنہ نہ واقع ہوا ہے اور نہ ہوگا “۔
دجال کے معنی خلط ملط کر دینے والا جھوٹا، شاطر اور چالباز ہے، اور دجال کو دجال اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حق کو باطل کے ذریعہ ڈھانپ دے گا یا اس وجہ سے کہ وہ اپنے جھوٹ، تلبیس اور شاطرانہ چالوں کی وجہ سے اپنے کفر کو لوگوں سے چھپا لے گا۔

دجال کی صفت:

دجال اولاد آدم میں سے ہے، اس نکلنا برحق ہے اور اس دنیا میں موجود ہے، البتہ کس جگہ ہے، اس کی بابت اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، دجال کے بے شمار صفات احادیث میں بیان کئے گئے ہیں، تاکہ لوگ اسے پہچان لیں اور اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں، دجال کے صفات میں سے یہ ہے کہ وہ مرد ہوگا، جوان ہوگا، سرخ ہوگا، پستہ قد ہوگا، اس کی پیشانی کشادہ ہوگی، اس کا سینہ چوڑا ہوگا، اس کی داہنی آنکھ خراب اور پچکے ہوئے  انگور کی مانند ہوگی، اور اس کی آنکھ پر موٹا ناخونہ ہوگا، وہ بانجھ ہوگا، اس کی اولاد نہ ہوگی، اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا، جسے ہر مسلمان پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ جب کہ کافر اور بد بخت لوگ اس کے صفات کو جاننے کے باوجود بھی اسے نہ پہچان سکیں گے اور اس کے فتنے میں پھنس جائیں گے۔

فتنہ دجال اور صحابہ کرام:

صحابہ کرام فتنہ دجال سے  کس قدر خائف اور لرزاں رہتے تھے اس کا صحیح اندازہ اوس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہوتا ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے: کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا یہاں تک کہ گمان ہوا کہ دجال ان درختوں کے جھنڈ میں آگیا ہے، پھر ہم آپ کے پاس شام کو گئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا یعنی ڈر اور خوف آپ نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہوگیا کہ دجال کھجور کے ان درختوں میں موجود ہے یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے۔
عزیز قاری! ذرا غور کیجئے کہ ایک دن جب مجلس نبوت میں فتنہ دجال کا ذکر ہوتا ہے تو آپ کے جان نثاران اس کی سنگینی کو بھانپ کر پژمردہ ہو جاتے ہیں، ان کے دلوں میں خوف و وحشت طاری ہو جاتی ہے، اور انہیں یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید وہ ان کا نوالہ بننے والے ہیں، جی ہاں! یہ فتنہ ہی فی الواقع نہایت دل دوز اور روح فرسا ہوگا۔

ظہور دجال کی جگہ:

دجال کا خروج مشرق کی ایک سرزمین سے ہوگا جسے خراسان کہتے ہیں، وہ اصفہان کے قبیلہ یہودیہ میں سے ہوگا، اصفہان مغرب میں ایک شہر ہے جسے آج شہرستان کے نام سے جانا جاتا ہے، سنن ترمذی میں حضرت ابوبکر رضی للہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الدجالُ يخرجُ من أرضٍ بالمشرقِ ، يقال لها : خراسانَ يتبعهُ أقوام كأن وجوههُم المجانُ المُطرقَةُ (سنن الترمذی:  2237)
دجال مشرق کی ایک سرزمین خراسان سے نکلے گا، اس کا ساتھ دینے والی ایسی قوم ہوگی جن کے چہرے چوڑے چوڑے ہوں گے، یعنی گول منہ موٹے جیسے ترک لوگ ہوتے ہیں۔

دجال کی مدت قیام:

دجال زمین پر چالیس دن تک رہے گا، جس کا پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا، دوسرا دن ایک مہینہ کے برابر اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر، اور باقی ایام عام دنوں کے برابر ہوں گے، گویا کہ ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن رہے گا، اس کی چال مینا کی سی ہوگی جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔

وہ سرزمیں جہاں دجال داخل نہیں ہوسکتا:

وہ ہرملک میں داخل ہوگا اور لوگوں کو اپنی فتنہ سامانی سے گمراہ کرے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے کیوں کہ فرشتے اس کی نگہبانی پر مامور ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں دجال کے بارے میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 إني أنا المسيحُ وإني أوشك أن يُؤذَنَ لي في الخروجِ . فأخرج فأسيرُ في الأرضِ فلا أدَعُ قريةً إلا هبطتُها في أربعين ليلةً . غيرَ مكةَ وطَيبةَ . فهما مُحرَّمتانِ عليَّ . كلتاهما . كلما أردتُ أن أدخل واحدةً ، أو واحدًا منهما ، استقبلَني ملَكٌ بيدِه السَّيفُ صَلْتًا . يَصدُّني عنها . وإنَّ على كل نَقبٍ منها ملائكةً يحرسونها (صحیح مسلم: 2942)
“مسیح دجال نے کہا پھر میرا خروج ہوگا تو میں زمین کی سیر کروں گا، اور میں کوئی بستی نہیں چھوڑوں گا، چالیس دن میں ہر جگہ پہنچ جاؤں گا، صرف مکہ طیبہ میں داخل نہ ہوسکوں گا، کیوں کہ وہ دونوں کے دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب جب میں ان میں سے کسی میں بھی داخل ہونے کا ارادہ کروں گا ایک فرشتہ ننگی تلوار سونتے میرے سامنے آئے گا جو مجھے اس میں داخل ہونے سے باز رکھے گا، اور اس کے ہر راستے پر فرشتے متعین ہوں گے جو اس کی نگہبانی کر رہے ہوں گے”۔
اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ دجال مسجد طور اور مسجد اقصی میں داخل نہ ہوسکے گا۔ (مسند أحمد : 22572)

دجال کے تابعدار:

دجال کے اکثر تابعدار یہود، ترک اور دیہاتی لوگ ہوں گے کیوں کہ دیہاتیوں پر بالعموم جہالت کا غلبہ ہوتا ہے، صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ دجال کی تابعداری اصفہان کے ستر ہزار یہودی کریں گے۔ (صحیح مسلم: 5237) اسی طرح مردوں کی بنسبت عورتیں اس کی زیادہ تابعدار ہوں گی کیونکہ وہ بہت جلد کسی بات سے متاثر ہوجاتی ہیں اور ان میں بھی جہالت کا غلبہ ہوتاہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ دجال کی طرف نکلنے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہوگی، یہاں تک کہ ایک آدمی اپنی ماں، بہن، بیٹی اور پھوپھی کو رسی میں باندھ دے گا کہ مبادا وہ دجال کے پاس چلی جائیں۔ (مسند احمد: 5099 )

دجال کا فتنہ :

جب سے اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اس وقت سے لیکر قیامت تک کا سب سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہوگا کیوں کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ایسے عظیم خوارق پیدا فرمائے گا جس سے عقل و خرد مبہوت اور حیران ہو کر رہ جائیں گے جیسے مردے کو زندہ کر دینا، زمین کا خزانہ نکالنا، پانی برسانا، غلہ اگانا، وارد ہوا ہے کہ اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوں گے اور اس کی جنت در حقیقت جہنم ہوگی اور اس کی جہنم اصل میں جنت ہوگی۔
دجال اپنے گنوار دیہاتی سے کہے گا کہ دیکھ اگر میں تیرے ماں پاپ کو زندہ کردوں تب تو مجھ کو اپنا رب کہے گا؟ وہ بولے گا: بیشک، چنانچہ دجال کے حکم سے دو شیطان اس کے ماں باپ کی صورت بن آئیں گے اور کہیں گے بیٹا! اس کی اطاعت کر یہ تیرا رب ہے۔
دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ ایک آدمی پرغالب ہوکر اس کو مار ڈالے گا بلکہ آری سے چیر کر اسے دو ٹکرے کردے گا، پھر اپنے معتقدوں سے کہے گا: من ربک؟ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہے گا:
رَبِّيَ اللهُ ، وأنت عَدُوُّ اللهِ ، أنت الدَّجَّالُ ، واللهِ ما كنتُ قَطُّ أَشَدُّ بصيرةً بك مِنِّي اليومَ . ( صحيح الجامع: 7875)
“میرا رب اللہ ہے، اور تو اللہ کا دشمن ہے تو دجال ہے، اللہ کی قسم اب تو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ تو دجال ہی ہے”۔
اور سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ دجال ایک قبیلے پر سے گزرے گا لوگ اس کی تکذیب کریں گے، تو اس کا کوئی چرنے والا جانور باقی نہ رہے گا، سب مر جائیں گے، اور ایک قبیلہ پر سے گزرے گا وہ لوگ اس کی تصدیق کریں گے تو وہ آسمان کو پانی برسانے کا حکم دے گا تو اس پر پانی برسے گا، زمین کوغلہ اور گھاس اگانے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اور گھاس اگائے گی، یہاں تک کہ ان کے جانور اسی دن شام کو نہایت موٹے، اور بڑے اور کوکھیں بھڑی ہوئی اور تھن دودھ سے پھولے ہوئے آئیں گے۔
اللہ اکبر! کتنا بڑا فتنہ ہوگا، کتنی بڑی آزمائش ہوگی، اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، غرضیکہ دجال مکہ اور مدینہ کے علاوہ چالیس دن تک ساری دنیا میں چکر کاٹے گا، اس کے ذریعہ اللہ تعالی کافروں اور منافقوں کو گمراہ کردے گا،اور مومنوں کو ثابت قدم رکھے گا۔

دجال کا قتل:

 دجال اسی حال میں ہوگا کہ ناگاہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھیجیں گے حضرت عیسی علیہ السلام دمشق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے، زرد رنگ کا جوڑا زیب تن کیے ہوں گے، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے، جب حضرت عیسی علیہ السلام اتریں گے، اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا، اور اس کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔
پھر حضرت عیسی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ آپ دجال کو باب لد جو شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے، وہاں پائیں گے، آپ کو دیکھنے کے بعد دجال نمک کے جیسے پگھل جائے گا، آپ اسے پکڑ لیں گے اور قتل کردیں گے۔
عزیز قاری! یہ ہے دجا کا فتنہ جو سارے فتنوں سے عظیم اور خطرناک ہے، آج ہم جس صدی میں سانس لے رہے ہیں، اس صدی میں بھی بے شمار قسم کے فتنے سر اٹھائے ہوئے ہیں، آج کتنے ایسے دجال ہیں جو لوگوں کو اپنے مکاشفات کا آلہ کار بنائے ہوئے ہیں، کتنے لوگ اپنے دین وایمان کا سودا کر رہے ہیں، اور شیطان کے دام تزویر میں پھنس کر جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں،نہ جانے دجال کے ظہور کے وقت ان کا کیا حال ہوگا۔

جساسہ کی حدیث:

صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث میں دجال کی صفت ، اس کے ( دنیا میں ) نکلنے اور جساسہ کی حدیث کے متعلق وضاحت آئی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم صحیح مسلم سے بعینہ یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
سیدنا عامر بن شراحیل شعبی (شعب ہمدان) سے روایت ہے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے جو کہ سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی، کہا کہ مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہ اسے بلاواسطہ سنی ہو۔ وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلے ہی جہاد میں شہید ہو گئے۔ جب میں بیوہ ہو گئی تو مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چند کے ساتھ آ کر نکاح کا پیغام دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لئے پیغام بھیجا۔ اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث سن چکی تھی کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے، اس کو چاہئے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ میرے کام کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں نکاح کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر چلی جاؤ اور ام شریک انصار میں ایک مالدار عورت تھی اور اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتی تھیں، اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھا، میں ام شریک کے پاس چلی جاؤں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام شریک کے پاس مت جا اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھے برا لگے گا۔ تم اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ابن ام مکتوم کے پاس چلی جاؤ اور وہ بنی فہر میں سے ایک شخص تھا اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پھر سیدہ فاطمہ نے کہا کہ میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی تھا، وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ صحابہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا، بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار ( یعنی چھوٹی کشتی ) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے ( یعنی جلدی ) دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت ! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو ( یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا )، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے، پس ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا، ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت ! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں ! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح ( دجال )ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں، سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو ! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو اصحاب نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمیم رضی اللہ عنہ کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے ( مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہے۔

فتنہ دجال سے حفاظت کی تدابیر:

اب میں آپ کے سامنے اُن وسائل کا ذکر کر رہا ہوں جن کو اپنا کر دجال کے فتنے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
1۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا اور اللہ تعالی کے اسماء و صفات سے واقفیت رکھنا، کیوں کہ اس طرح یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ دجال بشر ہے جو کھاتا پیتا ہے، جب کہ اللہ تعالی کی ذات اُن چیزوں سے منزہ ہے، دجال کانا ہے جب کہ اللہ تعالی کو کوئی عیب نہیں، اور کوئی شخص موت سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا  جب کہ مومن اور کافر سبھی لوگ دجال کو اس کے خروج کے وقت دیکھیں گے۔
2۔ دجال کے فتنے سے ہمیشہ پناہ مانگتے رہنا بالخصوص نمازوں میں، کیوں کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کرتے تھے:  
اللهمَّ إني أعوذُ بك من فتنةِ النارِ ومن عذابِ النارِ، وأعوذُ بك من فتنةِ القبرِ، وأعوذُ بك من عذابِ القبرِ، وأعوذُ بك من فتنةِ الغِنَى، وأعوذُ بك من فتنةِ الفقرِ، وأعوذُ بك من فتنةِ المسيحِ الدجَّالِ (صحیح البخاری: 6376)
اے اللہ میں جہنم کے فتنے اور عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں قبر کے فتنے اور عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں مالداری اور فقیری کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اورمیں مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں
3۔ سورہ کہف کی تلاوت کرنا اور اس کی ابتدائی دس آیات کو حفظ رکھنا بھی دجال کے فتنے سے حفاظت کا باعث ہے،صحیح مسلم میں ابوالدردء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حفظ عشر آيات من أول سورة الكهف عصم من فتنة الدجال ( صحیح مسلم: 809)
 جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرلے وہ دجال سے محفوظ رہے گا یعنی اُس کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
4۔ ظہور دجال کے وقت اس سے فرار اختیار کرنا اور اس سے دور رہنا چاہئے کیوں کہ اُس کے ساتھ جو شبہات اور خوارق عادات ہوں گے وہ لوگوں کے لیے آزمائش کا سبب بن جائیں گے۔  اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فتنہ دجال سے محفوظ رکھے: آمین یا رب العالمین۔
 اللهمَّ إني أعوذُ بك من فتنةِ المسيحِ الدجَّالِ  

2 comments:

  1. The best online casino with the highest payout rate!
    The best online casino with the highest payout 온라인 라이브 딜러 카지노 사이트 rate! and the most popular gambling websites, like Ignition Casino, and BetVictor.

    ReplyDelete
  2. Slotyro Casino in Mahaganata - Mapyro
    View detailed information for Slotyro Casino in Mahaganata. Slotyro Casino has 서울특별 출장마사지 704 slot 의정부 출장마사지 machines with 김제 출장안마 the 충청남도 출장안마 largest jackpot in the 제주도 출장샵 entire kingdom.

    ReplyDelete