مرزائیت کا احتساب

Thursday, June 25, 2015


” قیامت کے دن تک دجال کے فتنہ سے عظیم فتنہ نہ واقع ہوا ہے اور نہ ہوگا “۔

                                                                                 
آج ہم قیامت کی ایک عظیم اور ہولناک نشانی کا ذکر کریں گے جس سے نوح علیہ السلام کے بعد سارے انبیاء کرام نے اپنی قوموں کو ڈرایا، اس کے ظاہری صفات کو بیان کیا، اور اس سے بچنے کی تاکید کی، کیا آپ جانتے ہیں وہ کیا ہے؟ جی ہاں وہ دراصل دجال کا ظہور ہے جسے اللہ رب العالمین انسانوں کی آزمائش کے لیے بھیجے گا، جس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں، جس سے عظیم کو ئی آزمائش نہیں، امام حاکم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
  ما كانت فتنةٌ ولا تكون حتى تقومَ الساعةُ أعظم من فتنةِ الدجالِ (الألباني السلسلہ الصحیحہ: 3081)
”  قیامت کے دن تک دجال کے فتنہ سے عظیم فتنہ نہ واقع ہوا ہے اور نہ ہوگا “۔
دجال کے معنی خلط ملط کر دینے والا جھوٹا، شاطر اور چالباز ہے، اور دجال کو دجال اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حق کو باطل کے ذریعہ ڈھانپ دے گا یا اس وجہ سے کہ وہ اپنے جھوٹ، تلبیس اور شاطرانہ چالوں کی وجہ سے اپنے کفر کو لوگوں سے چھپا لے گا۔

دجال کی صفت:

دجال اولاد آدم میں سے ہے، اس نکلنا برحق ہے اور اس دنیا میں موجود ہے، البتہ کس جگہ ہے، اس کی بابت اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، دجال کے بے شمار صفات احادیث میں بیان کئے گئے ہیں، تاکہ لوگ اسے پہچان لیں اور اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں، دجال کے صفات میں سے یہ ہے کہ وہ مرد ہوگا، جوان ہوگا، سرخ ہوگا، پستہ قد ہوگا، اس کی پیشانی کشادہ ہوگی، اس کا سینہ چوڑا ہوگا، اس کی داہنی آنکھ خراب اور پچکے ہوئے  انگور کی مانند ہوگی، اور اس کی آنکھ پر موٹا ناخونہ ہوگا، وہ بانجھ ہوگا، اس کی اولاد نہ ہوگی، اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا، جسے ہر مسلمان پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ جب کہ کافر اور بد بخت لوگ اس کے صفات کو جاننے کے باوجود بھی اسے نہ پہچان سکیں گے اور اس کے فتنے میں پھنس جائیں گے۔

فتنہ دجال اور صحابہ کرام:

صحابہ کرام فتنہ دجال سے  کس قدر خائف اور لرزاں رہتے تھے اس کا صحیح اندازہ اوس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہوتا ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے: کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا یہاں تک کہ گمان ہوا کہ دجال ان درختوں کے جھنڈ میں آگیا ہے، پھر ہم آپ کے پاس شام کو گئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا یعنی ڈر اور خوف آپ نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہوگیا کہ دجال کھجور کے ان درختوں میں موجود ہے یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے۔
عزیز قاری! ذرا غور کیجئے کہ ایک دن جب مجلس نبوت میں فتنہ دجال کا ذکر ہوتا ہے تو آپ کے جان نثاران اس کی سنگینی کو بھانپ کر پژمردہ ہو جاتے ہیں، ان کے دلوں میں خوف و وحشت طاری ہو جاتی ہے، اور انہیں یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید وہ ان کا نوالہ بننے والے ہیں، جی ہاں! یہ فتنہ ہی فی الواقع نہایت دل دوز اور روح فرسا ہوگا۔

ظہور دجال کی جگہ:

دجال کا خروج مشرق کی ایک سرزمین سے ہوگا جسے خراسان کہتے ہیں، وہ اصفہان کے قبیلہ یہودیہ میں سے ہوگا، اصفہان مغرب میں ایک شہر ہے جسے آج شہرستان کے نام سے جانا جاتا ہے، سنن ترمذی میں حضرت ابوبکر رضی للہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الدجالُ يخرجُ من أرضٍ بالمشرقِ ، يقال لها : خراسانَ يتبعهُ أقوام كأن وجوههُم المجانُ المُطرقَةُ (سنن الترمذی:  2237)
دجال مشرق کی ایک سرزمین خراسان سے نکلے گا، اس کا ساتھ دینے والی ایسی قوم ہوگی جن کے چہرے چوڑے چوڑے ہوں گے، یعنی گول منہ موٹے جیسے ترک لوگ ہوتے ہیں۔

دجال کی مدت قیام:

دجال زمین پر چالیس دن تک رہے گا، جس کا پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا، دوسرا دن ایک مہینہ کے برابر اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر، اور باقی ایام عام دنوں کے برابر ہوں گے، گویا کہ ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن رہے گا، اس کی چال مینا کی سی ہوگی جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔

وہ سرزمیں جہاں دجال داخل نہیں ہوسکتا:

وہ ہرملک میں داخل ہوگا اور لوگوں کو اپنی فتنہ سامانی سے گمراہ کرے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے کیوں کہ فرشتے اس کی نگہبانی پر مامور ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں دجال کے بارے میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 إني أنا المسيحُ وإني أوشك أن يُؤذَنَ لي في الخروجِ . فأخرج فأسيرُ في الأرضِ فلا أدَعُ قريةً إلا هبطتُها في أربعين ليلةً . غيرَ مكةَ وطَيبةَ . فهما مُحرَّمتانِ عليَّ . كلتاهما . كلما أردتُ أن أدخل واحدةً ، أو واحدًا منهما ، استقبلَني ملَكٌ بيدِه السَّيفُ صَلْتًا . يَصدُّني عنها . وإنَّ على كل نَقبٍ منها ملائكةً يحرسونها (صحیح مسلم: 2942)
“مسیح دجال نے کہا پھر میرا خروج ہوگا تو میں زمین کی سیر کروں گا، اور میں کوئی بستی نہیں چھوڑوں گا، چالیس دن میں ہر جگہ پہنچ جاؤں گا، صرف مکہ طیبہ میں داخل نہ ہوسکوں گا، کیوں کہ وہ دونوں کے دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب جب میں ان میں سے کسی میں بھی داخل ہونے کا ارادہ کروں گا ایک فرشتہ ننگی تلوار سونتے میرے سامنے آئے گا جو مجھے اس میں داخل ہونے سے باز رکھے گا، اور اس کے ہر راستے پر فرشتے متعین ہوں گے جو اس کی نگہبانی کر رہے ہوں گے”۔
اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ دجال مسجد طور اور مسجد اقصی میں داخل نہ ہوسکے گا۔ (مسند أحمد : 22572)

دجال کے تابعدار:

دجال کے اکثر تابعدار یہود، ترک اور دیہاتی لوگ ہوں گے کیوں کہ دیہاتیوں پر بالعموم جہالت کا غلبہ ہوتا ہے، صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ دجال کی تابعداری اصفہان کے ستر ہزار یہودی کریں گے۔ (صحیح مسلم: 5237) اسی طرح مردوں کی بنسبت عورتیں اس کی زیادہ تابعدار ہوں گی کیونکہ وہ بہت جلد کسی بات سے متاثر ہوجاتی ہیں اور ان میں بھی جہالت کا غلبہ ہوتاہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ دجال کی طرف نکلنے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہوگی، یہاں تک کہ ایک آدمی اپنی ماں، بہن، بیٹی اور پھوپھی کو رسی میں باندھ دے گا کہ مبادا وہ دجال کے پاس چلی جائیں۔ (مسند احمد: 5099 )

دجال کا فتنہ :

جب سے اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اس وقت سے لیکر قیامت تک کا سب سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہوگا کیوں کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ایسے عظیم خوارق پیدا فرمائے گا جس سے عقل و خرد مبہوت اور حیران ہو کر رہ جائیں گے جیسے مردے کو زندہ کر دینا، زمین کا خزانہ نکالنا، پانی برسانا، غلہ اگانا، وارد ہوا ہے کہ اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوں گے اور اس کی جنت در حقیقت جہنم ہوگی اور اس کی جہنم اصل میں جنت ہوگی۔
دجال اپنے گنوار دیہاتی سے کہے گا کہ دیکھ اگر میں تیرے ماں پاپ کو زندہ کردوں تب تو مجھ کو اپنا رب کہے گا؟ وہ بولے گا: بیشک، چنانچہ دجال کے حکم سے دو شیطان اس کے ماں باپ کی صورت بن آئیں گے اور کہیں گے بیٹا! اس کی اطاعت کر یہ تیرا رب ہے۔
دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ ایک آدمی پرغالب ہوکر اس کو مار ڈالے گا بلکہ آری سے چیر کر اسے دو ٹکرے کردے گا، پھر اپنے معتقدوں سے کہے گا: من ربک؟ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہے گا:
رَبِّيَ اللهُ ، وأنت عَدُوُّ اللهِ ، أنت الدَّجَّالُ ، واللهِ ما كنتُ قَطُّ أَشَدُّ بصيرةً بك مِنِّي اليومَ . ( صحيح الجامع: 7875)
“میرا رب اللہ ہے، اور تو اللہ کا دشمن ہے تو دجال ہے، اللہ کی قسم اب تو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ تو دجال ہی ہے”۔
اور سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ دجال ایک قبیلے پر سے گزرے گا لوگ اس کی تکذیب کریں گے، تو اس کا کوئی چرنے والا جانور باقی نہ رہے گا، سب مر جائیں گے، اور ایک قبیلہ پر سے گزرے گا وہ لوگ اس کی تصدیق کریں گے تو وہ آسمان کو پانی برسانے کا حکم دے گا تو اس پر پانی برسے گا، زمین کوغلہ اور گھاس اگانے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اور گھاس اگائے گی، یہاں تک کہ ان کے جانور اسی دن شام کو نہایت موٹے، اور بڑے اور کوکھیں بھڑی ہوئی اور تھن دودھ سے پھولے ہوئے آئیں گے۔
اللہ اکبر! کتنا بڑا فتنہ ہوگا، کتنی بڑی آزمائش ہوگی، اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، غرضیکہ دجال مکہ اور مدینہ کے علاوہ چالیس دن تک ساری دنیا میں چکر کاٹے گا، اس کے ذریعہ اللہ تعالی کافروں اور منافقوں کو گمراہ کردے گا،اور مومنوں کو ثابت قدم رکھے گا۔

دجال کا قتل:

 دجال اسی حال میں ہوگا کہ ناگاہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھیجیں گے حضرت عیسی علیہ السلام دمشق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے، زرد رنگ کا جوڑا زیب تن کیے ہوں گے، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے، جب حضرت عیسی علیہ السلام اتریں گے، اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا، اور اس کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔
پھر حضرت عیسی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ آپ دجال کو باب لد جو شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے، وہاں پائیں گے، آپ کو دیکھنے کے بعد دجال نمک کے جیسے پگھل جائے گا، آپ اسے پکڑ لیں گے اور قتل کردیں گے۔
عزیز قاری! یہ ہے دجا کا فتنہ جو سارے فتنوں سے عظیم اور خطرناک ہے، آج ہم جس صدی میں سانس لے رہے ہیں، اس صدی میں بھی بے شمار قسم کے فتنے سر اٹھائے ہوئے ہیں، آج کتنے ایسے دجال ہیں جو لوگوں کو اپنے مکاشفات کا آلہ کار بنائے ہوئے ہیں، کتنے لوگ اپنے دین وایمان کا سودا کر رہے ہیں، اور شیطان کے دام تزویر میں پھنس کر جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں،نہ جانے دجال کے ظہور کے وقت ان کا کیا حال ہوگا۔

جساسہ کی حدیث:

صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث میں دجال کی صفت ، اس کے ( دنیا میں ) نکلنے اور جساسہ کی حدیث کے متعلق وضاحت آئی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم صحیح مسلم سے بعینہ یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
سیدنا عامر بن شراحیل شعبی (شعب ہمدان) سے روایت ہے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے جو کہ سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی، کہا کہ مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہ اسے بلاواسطہ سنی ہو۔ وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلے ہی جہاد میں شہید ہو گئے۔ جب میں بیوہ ہو گئی تو مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چند کے ساتھ آ کر نکاح کا پیغام دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لئے پیغام بھیجا۔ اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث سن چکی تھی کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے، اس کو چاہئے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ میرے کام کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں نکاح کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر چلی جاؤ اور ام شریک انصار میں ایک مالدار عورت تھی اور اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتی تھیں، اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھا، میں ام شریک کے پاس چلی جاؤں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام شریک کے پاس مت جا اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھے برا لگے گا۔ تم اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ابن ام مکتوم کے پاس چلی جاؤ اور وہ بنی فہر میں سے ایک شخص تھا اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پھر سیدہ فاطمہ نے کہا کہ میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی تھا، وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ صحابہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا، بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار ( یعنی چھوٹی کشتی ) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے ( یعنی جلدی ) دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت ! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو ( یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا )، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے، پس ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا، ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت ! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں ! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح ( دجال )ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں، سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو ! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو اصحاب نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمیم رضی اللہ عنہ کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے ( مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہے۔

فتنہ دجال سے حفاظت کی تدابیر:

اب میں آپ کے سامنے اُن وسائل کا ذکر کر رہا ہوں جن کو اپنا کر دجال کے فتنے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
1۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا اور اللہ تعالی کے اسماء و صفات سے واقفیت رکھنا، کیوں کہ اس طرح یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ دجال بشر ہے جو کھاتا پیتا ہے، جب کہ اللہ تعالی کی ذات اُن چیزوں سے منزہ ہے، دجال کانا ہے جب کہ اللہ تعالی کو کوئی عیب نہیں، اور کوئی شخص موت سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا  جب کہ مومن اور کافر سبھی لوگ دجال کو اس کے خروج کے وقت دیکھیں گے۔
2۔ دجال کے فتنے سے ہمیشہ پناہ مانگتے رہنا بالخصوص نمازوں میں، کیوں کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کرتے تھے:  
اللهمَّ إني أعوذُ بك من فتنةِ النارِ ومن عذابِ النارِ، وأعوذُ بك من فتنةِ القبرِ، وأعوذُ بك من عذابِ القبرِ، وأعوذُ بك من فتنةِ الغِنَى، وأعوذُ بك من فتنةِ الفقرِ، وأعوذُ بك من فتنةِ المسيحِ الدجَّالِ (صحیح البخاری: 6376)
اے اللہ میں جہنم کے فتنے اور عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں قبر کے فتنے اور عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں مالداری اور فقیری کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اورمیں مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں
3۔ سورہ کہف کی تلاوت کرنا اور اس کی ابتدائی دس آیات کو حفظ رکھنا بھی دجال کے فتنے سے حفاظت کا باعث ہے،صحیح مسلم میں ابوالدردء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حفظ عشر آيات من أول سورة الكهف عصم من فتنة الدجال ( صحیح مسلم: 809)
 جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرلے وہ دجال سے محفوظ رہے گا یعنی اُس کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
4۔ ظہور دجال کے وقت اس سے فرار اختیار کرنا اور اس سے دور رہنا چاہئے کیوں کہ اُس کے ساتھ جو شبہات اور خوارق عادات ہوں گے وہ لوگوں کے لیے آزمائش کا سبب بن جائیں گے۔  اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فتنہ دجال سے محفوظ رکھے: آمین یا رب العالمین۔
 اللهمَّ إني أعوذُ بك من فتنةِ المسيحِ الدجَّالِ  

Wednesday, June 24, 2015

حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر قران و حدیث سے سبوت


حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو چونکہ یہودی توراۃ میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کردیں گے۔ اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ محسوس فرمالیا کہ یہودی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور وہ مجھے قتل کردیں گے تو ایک دن آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ یعنی کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کے دین کی طرف۔ بارہ یا اُنیس حواریوں نے یہ کہا کہ
نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ﴿۵۲
یعنی ہم خدا کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
    باقی تمام یہودی اپنے کفر پر جمے رہے یہاں تک کہ جوش عداوت میں ان یہودیوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا اور ایک شخص کو یہودیوں نے جس کا نام ”ططیانوس” تھا آپ کے مکان میں آپ کو قتل کردینے کے لئے بھیجا۔ اتنے میں اچانک اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ایک بدلی کے ساتھ بھیجا اور اس بدلی نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ آپ کی والدہ جوشِ محبت میں آپ کے ساتھ چمٹ گئیں تو آپ نے فرمایا کہ اماں جان! اب قیامت کے دن ہماری اور آپ کی ملاقات ہو گی اور بدلی نے آپ کو آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بیت المقدس میں شب قدر کی مبارک رات میں وقوع پذیر ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف بقول علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ ۳۳ برس کی تھی  ۔
   (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷)
 ”ططیانوس”جب بہت دیر مکان سے باہر نہیں نکلا تو یہودیوں نے مکان میں گھس کر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ”ططیانوس”کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل کا بنا دیا یہودیوں نے ”ططیانوس”کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر قتل کردیا۔ اس کے بعد جب ططیانوس کے گھر والوں نے غور سے دیکھا تو صرف چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا باقی سارا بدن ططیانوس ہی کا تھا تو اسکے اہل خاندان نے کہا کہ اگر یہ مقتول حضرت عیسیٰ ہیں تو ہمارا آدمی ططیانوس کہاں ہے؟ اور اگر یہ ططیانوس ہے تو حضرت عیسیٰ کہاں گئے؟ اس پر خود یہودیوں میں جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا اور بہت سے یہودی قتل ہو گئے۔ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا کہ:۔
 وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿54﴾اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوْقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیۡنَکُمْ فِیۡمَا کُنۡتُمْ فِیۡہِ تَخْتَلِفُوۡنَ ﴿55
 ترجمہ کنزالایمان:۔اور کافروں نے مکر کیا اوراللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرما دوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔   (پ3،آل عمران:54،55
آپ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے چھ برس دنیا میں رہ کر وفات پائی  (بخاری و مسلم) کی روایت ہے کہ قربِ قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے اور دجال و خنزیر کو قتل فرمائیں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور سات برس تک دنیا میں عدل فرما کر وفات پائیں گے اور مدینہ منورہ میں گنبد ِ خضراء کے اندر مدفون ہوں گے۔
  (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷)
اور قرآن مجید میں عیسائیوں  اور قادیانیوں کا رد کرتے ہوئے یہ بھی نازل ہوا کہ
 وَمَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًاۢ ﴿157﴾ۙبَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ ؕ وَکَانَ اللہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿158
 ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔     (پ6،النساء:157،158
اور اس سے اوپر والی آیت میں ہے کہ:۔
 وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ وَلٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمْ
ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اس کی شبیہ کا ایک بنا دیا گیا۔ (پ6،النساء:157
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کے ہاتھوں مقتول نہیں ہوئے اور اللہ نے آپ کو آسمانوں پر اٹھا لیا، جو یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل ہو گئے اور سولی پر چڑھائے گئے جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے تو وہ شخص کافر ہے کیونکہ قرآن مجید میں صاف صاف مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ سولی پر لٹکائے گئے۔
  
ستر ہزار مرد وں کے زندہ ہونے کا واقعہ 
اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا۔ اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ ”موتوا”یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کرسکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن اور بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موتِ ناگہانی اور بے گور و کفن لاشوں کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالیٰ کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔
آپ بڑے سوزِ دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر یہ وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہوجاؤ۔ یہ سن کر بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔ پھر یہ وحی آئی کہ اے حزقیل (علیہ السلام)آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو!تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ اے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کرکھڑے ہوجاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ ”سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ۔ پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آ کر دوبارہ آباد ہو گئے۔ اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہوجاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہوجاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ یہ اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔
           (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۷۸،پ۲،البقرۃ: ۲۴۳)
 یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں خداوند قدوس نے اس طرح بیان فرمایا کہ:۔
 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَذُوۡ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوۡنَ ﴿243
 ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تواللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر اُنہیں زندہ فرما دیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔ (پ2،البقرۃ:243
درس ہدایت:۔بنی اسرائیل کے اس محیر العقول واقعہ سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں
آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ لہٰذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آسکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی لہٰذابندوں کو لازم ہے کہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں اور خواہ کتنی ہی وبا پھیلے یا گھمسان کا رن پڑے اطمینان و سکون کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری موت نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مارسکتا اور نہ میں مرسکتا ہوں اور جب میری موت آجائے گی تو میں کچھ بھی کروں، کہیں بھی چلا جاؤں، بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔
 سو برس تک مردہ رہے پھر زندہ ہو گئے
 یہ واقعہ حضرت عزیر بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کردیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا۔ اور ایک لاکھ کو ملک شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کردیا۔ اور ایک لاکھ کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنالیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام جب کسی طرح ”بخت نصر” کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہوچکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بے اختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِھَا یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالیٰ پھر اس کو آباد کریگا؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا، اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا۔ اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کردیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا۔ اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کردیا۔ اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلابلا کر اس شہر میں آباد کردیا۔ اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اورقسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور بارونق بنا دیا۔
جب حضرت عزیر علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مرچکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بو باس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمر وہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیر! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے؟ تو آپ نے خیال کر کے کہاکہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں،اے عزیر! تم پورے ایک سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیر! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان پر گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہو کر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا
اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259)
اس کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت ہی بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیر کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیر کا کیا ذکر ہے؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا!میں ہی عزیر ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ آپ کیسے عزیر ہوسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام تو ایسے باکمال تھے کہ ان کی ہر دعا مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیر (علیہ السلام)ہیں تو میرے لئے دعا کردیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آجائے اور میرا فالج اچھا ہوجائے۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے دعا کردی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقینا حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لے کر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہوچکا تھا۔ اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا کہ اے لوگو! بلاشبہ یہ حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا مسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیر کو تو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیر ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنایئے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کردیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیر نے توراۃ صحیح پڑھی ہے یا نہیں؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی بیل کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کردی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کردو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کردوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیر نے جو توراۃ پڑھی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیر کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کردیا کہ بے شک حضرت عزیر یہی ہیں اور یقینا یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذ اللہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ
        (تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۳۲۲،پ۳،البقرۃ:۲۵۹)
     اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔
 اَوْکَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ؕ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَانۡظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ ۟ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانۡظُرْ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوۡہَا لَحْمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259
 ترجمہ کنزالایمان:۔ یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پراور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کر دیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا ، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم۔ فرمایا نہیں بلکہ تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بُو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ (کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں)اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259
درس ہدایت:۔(۱)ان آیتوں میں صاف صاف موجود ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی آب و ہوا میں حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا تو مر کر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں مگر پھلوں اور شیرہ انگور اور خود حضرت عزیر علیہ السلام کی ذات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان کے اندر ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض مردوں کی لاشیں گل سڑ کر فنا ہوجائیں اور بعض بزرگوں کی لاشیں سلامت رہ جائیں اور ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں ایسا ہوسکتا ہے، بلکہ بارہا ایسا ہوا ہے اور حضرت عزیر علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل ہے۔  (واللہ تعالیٰ اعلم
بیت المقدس کی تباہی اور ویرانی دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام غم میں ڈوب گئے اور فکرمند ہو کر یہ کہہ دیا کہ اس شہر کی بربادی اور ویرانی کے بعد کیونکر اللہ تعالیٰ اس شہر کو دوبارہ آباد فرمائے گا؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے وطن اور شہر سے محبت کرنا اور الفت رکھنا یہ صالحین اور اللہ والوں کا طریقہ ہے۔  (واللہ تعالٰی اعلم
نزول عیسیٰ علیہ ا لسلام قرآن کی نظر میں
 اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوْقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیۡنَکُمْ فِیۡمَا کُنۡتُمْ فِیۡہِ تَخْتَلِفُوۡنَ ﴿55
 ترجمہ کنزالایمان:۔ یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرما دوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔   (پ3،آل عمران:55
 آیت میں (اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ ) فرمایا گیا، لفظ توفی “وفا” سے مشتق ہے، جس کے معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انہی معنوں میں وفات کا لفظ موت کے لیے بھی اصطلاحاً مستعمل ہے کیونکہ موت انسان کے تمام تر علائق کا دنیا سے خاتمہ کردیتی ہے ۔لیکن قرآن کریم میں “توفی” کا لفظ کہیں بھی موت کے لیے استعمال نہیں ہوا، چنانچہ فرمایا گیا ( حتیٰ یتوفھنّٰ الموت ) یہاں موت اور توفی ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں، کیونکہ یہ دونوں لغوی اعتبار سے ہم معنی یا مترادف نہیں۔
 “لغت عرب میں توفی کے معنی استیفاء پورا پورا لینے کے ہیں اور توفی کی تین قسمیں ہیں ایک توفی نوم یعنی نیند اور خواب کی توفی اور دوسری توفی موت کے وقت روح کو پورا پورا قبض کرلینا،تیسری توفی الروح والجسد یعنی روح اور جسم کو پورا پورا لے لینا۔”
 اس کے بعد فرمایا (رَافِعُكَ اِلَيَّ ) اس میں جو “رفع” ہے، وہ آیت کی تفسیر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر رفع بمعنی بلندیٔ درجات بھی آیا ہے۔ لیکن زیربحث آیت میں “رفع” کے ساتھ “الی” بھی شامل ہے، جس کا غالب قرینہ یہی ہے کہ ﷲ رب العزت نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا، اس کی تائید “تفسیر القرآن بالقرآن” کے اصول کے تحت قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے بھی ہوتی ہے۔
(وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا     ١٥٨ )(سورة النسآء:١٥٧-١٥٨)
 آیت میں پہلے یہود ونصاریٰ کے” اتباع الظن” کی تردید کی گئی ہے اور یہ تردید “بل”کہہ کر کی گئی ہے،    (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ: “اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے اپنی طرف ان کا درجہ بلند کیا ہے۔ تو”بل” کا فائدہ ختم ہوجائے گااور معنوں میں ایک بے ربطی پیدا ہوگی۔
اس کے برعکس (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ :”اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔”  مناسب  ہے کیوں کہ  یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بل رفعہ اللہ الیہ کی ضمیر اس طرف راجع ہے کہ جس طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسدِ مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑ ھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔
 منکرینِ نزول عیسیٰ علیہ السلام کو چاہیئے کہ وہ ( بل رفعہ اللہ الیہ ) کی صحیح تشریح فرمائیں وگرنہ اتباع حق کی پیروی اختیار کریں۔
وَ اِنۡ مِّنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمْ شَہِیۡدًا ﴿-سورہ النساء-۱۵۹
اس آیت میں فرمایا گیا (کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے  پہلے اس پر ایمان نہ لائے اورقیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا )
 ( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ )(سورة الزخرف :٦١)
 ترجمہ : اور بیشک عیسٰی قیامت کی خبر ہے
 اس آیت میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کو علامات قیامت میں سے فرمایا گیا ہے، بعض ارباب علم کے نزدیک اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن دنیا میں قدرت الٰہیہ سے معجزات کاصدور کچھ کم نہیں ہوا، معجزات کا صدور جب بھی ہوا ہے تو اس کی غرض وغایت اس کے سوا اور کیا تھی کہ مادہ پرست انسانوں کو ان کی عاجزی سے آگاہ کردیا جائے اور جتلا دیا جائے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو کارخانۂ ہستی کوچلارہی ہے۔ طوفان نوح (علیہ السلام) کیا ایک معجزئہ عظیم نہ تھا؟ آتش نمرود میں سیدنا خلیل اللہ علیہ الصلوةٰ و السلام کا زندہ سلامت رہنا کیا ایک امر مستبعاد نہ تھا؟ قوم لوط (علیہ السلام) پر غیر معمولی عذابِ الٰہی کیا ایک غیر معمولی واقعہ نہ تھا؟ کیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا باذن الٰہی دریائے نیل کے شوریدہ پانیوں کو دوحصوں میں تقسیم کرنا، اس کے درمیان سے اپنی قوم کو صحیح سلامت گزار لینا اور فرعون و آل فرعون کا اس دریا میں غرق ہوجانا، انسانی عقل کے لیے اس کے عجز کا اظہار نہ تھا؟ پھر آخر کیا و جہ ہے کہ “الساعة” کے معنی میں صرف سیدنا مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کو علامت قیامت قرار دیاجائے؟ آخر کیوں سیدنا مسیح علیہ السلام کی مکمل ذات اور بالخصوص ان کے نزول کو مراد نہ لیا جائے؟ کیا اللہ غالب عزیز وحکیم نہیں ہے؟  أفلا یتدبرون۔
 نزول عیسیٰ علیہ ا لسلام احادیث صحیحہ کی نظر میں
قرآن کریم کے بعد احادیث صحیحہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بکثرت احادیث میں”امارات الساعة” کے بیان میں نزول مسیح ابن مریم علیہما السلام کی روایات موجود ہیں۔ عام طور پر منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام یہ دجل و تلبیس دیتے ہیں کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے بابت احادیث کتب حدیث کے تیسرے درجے کی کتابوں میں مرقوم ہیںاور سب کی سب پائے ثقاہت سے گری ہوئی ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق احادیث تقریباً تمام معتبر کتب احادیث میں بکثرت مرقوم ہیں۔ “صحیح بخاری”میں نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق چار احادیث ہیں:
١۔ باب قتل الخنزیر من کتاب البیوع
٢ ۔ باب کسر الصلیب من کتاب المظالم
٣ ۔ باب نزول عیسیٰ بن مریم علیھما السلام من کتاب أحادیث الأنبیائمیں دو حدیثیں ہیں۔
صحیح مسلم میں کتاب الایمان اور کتاب الفتن و اشراط الساعة میں متعد د احادیث نزول مسیح علیہ السلام موجود ہیں۔
سنن أبی دائود میں کتاب الملاحم کے مختلف ابواب میں احادیث نزول مسیح ابن مریم موجود ہیں۔
سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے کتاب الفتن میں بھی یہ احادیث موجود ہیں۔
کسی منصف پر مخفی نہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی ذات شریفہ کا بحیثیت حاکم مقسط نزول الی الارض احادیث صحیحہ اور سنت مطہرہ سے ثابت ہے اور اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ بے شک وہ اس وقت آسمان پر زندہ ہیں یقیناً انہیں موت نہیں آئی۔ اور جیسا کہ اس کے ثبوت میں اللہعزو جل نے قرآن میں یہود (جن پر اللہکا غضب ہوا) کے گمان کی کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو قتل کیاہے، کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) (ترجمہ: “اور یقیناًانہیں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا”) پس اس آیت کریمہ میں ﷲتعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ بے شک جو ارادہ یہودیوں نے ان کے قتل کرنے کا اور انہیں پکڑنے کاکیاانہی عیسیٰ علیہ السلام کے سوا اللہ نے کسی دوسرے کے جسم عنصری کو اپنی طرف نہیں اٹھایا اوریہودی کامیاب نہیں ہوئے اور عیسیٰ علیہ السلام کو ذرا تکلیف بھی نہ پہنچاسکے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رفع سے قبل ان سے وعدہ فرمایاتھا: ( و ما یضرونک من شیئٍ ) (ترجمہ:”اور وہ آپ کو ذرا سے بھی تکلیف نہیں پہنچاسکتے”) اور ان کے جسم کو زندہ اٹھالیا یہی تفسیر ابن عباس نے کی ہے جیسا کہ ان سے باسناد صحیح ثابت ہے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھالیا گیا اور اسی پر ہماری ذکر کردہ احادیث صحیحہ متواترہ مذکورہ مصرحہ دلیل ہیں کہ ان کی ذات شریفہ کا نزول ہوگا جس میں کسی تاویل کا احتمال نہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ  ) (ترجمہ:”اور یہ کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا جو ان کی موت سے قبل ان پر ایمان نہ لے آئے”)۔اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل کہا گیا ہے جیسا کہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس اور ان دونوں کے علاوہ دیگر صحابہ اور سلف صالحین نے کہا ہے اور ابن کثیر کی تفسیر سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کی موت آخری زمانے میں ہوگی اور ان پر تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کے نزول الی الارض کو علامات قیامت میں شمار کرتے ہوئے فرمایا وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ۔ ابن کثیر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں
 “بے شک اس میں ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جاتی ہے۔ اس سیاق میں ان کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ ان کا نزول قیامت کے دن سے قبل ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل مراد ہے اور انہی معنوں کی تائید میں یہ قرأت ہے وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) یعنی عین اور لام پر زبر کے ساتھ، جس کا مطلب قیامت ہے اور وہ و قوع قیامت کی دلیل ہیں۔ مجاہد کہتے ہیں وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس آیت میں  للساعة سے یوم قیامت سے قبل خروج عیسیٰ بن مریم مراد ہے اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے ابو ہریرہ، ابن عباس، ابو العالیہ، ابو مالک، عکرمہ، حسن، قتادہ، ضحاک وغیرہم سے۔ اور بلاشبہ تواتر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے یہ خبر منقول ہے کہ انہوں نے خبر دی کہ یوم قیامت سے قبل عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت امام، عادل، حاکم، مقسط ہوگا۔” انتہی
پس ان آیات کریمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے منقول نصوص صریحہ ثابتہ اس امر پر واضح دلیل ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول آسمان سے زمین کی طرف قیامت کے قریب ہوگا۔
سنن ترمذی کی ایک اہم اسرائیلی روایت
احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں قرآن پاک کی تفسیر نہایت سہل ہوگئی ہے، اس کی تائید میں محرف زدہ اناجیل بھی ہے اور گمشدہ توریت بھی۔ امام ترمذی نے اپنی “الجامع” کے کتاب المناقب میں ایک موقوف اثر روایت کیا ہے۔ وھو ھذا
     “حدثنا زید بن اخزم الطائی البصری حدثنا ابو قتیبة حدثنی ابو مودود المدنی حدثنا عثمان بن الضحاک عن محمد بن یوسف بن عبد اﷲ بن سلام عن ابیہ عن جدہ قال: “مکتوب فی التوراة صفة محمد و صفة عیسی  ابن مریم یدفن معہ۔” فقال ابو مودود و قد بقی فی البیت موضع قبر قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث حسن غریب ھکذا قال عثمان بن الضحاک بن عثمان المدنی۔
    یعنی: ”توریت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں یہ لکھا تھاکہ دونوں ایک ہی جگہ مدفون ہوں گے۔”
اس حدیث کے راویوں میں زید بن اخزم الطائی کو نسائی و دارقطنی نے ثقہ کہا ہے، ابن حبان انہیں مستقیم الحدیث کہتے ہیں۔
ابو قتیبہ مسلم بن قتیبہ کے لیے یحییٰ بن معین “لیس بہ بأس” کہتے ہیں۔ ابو داود و دارقطنی انہیں ثقہ کہتے ہیں۔
ابو مودود المدنی کی وثاقت پر امام احمد، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو دائود، ابن حبان وغیرہم متفق ہیں۔
عثمان بن الضحاک کو ابن حبان نے ثقہ کہا جبکہ ابوداود نے تضعیف کی۔
محمد بن یوسف مقبول راوی ہیں اور زمرئہ تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد یوسف صغار صحابی ہیں اور ان کے دادا عبدا ﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ معروف صحابی ہیں اور معلوم ہے کہ ”الصحابة کلھم العدول”۔
منکرین نزول مسیح کے چند اعتراضات
     ٭ منکرین نزول عیسیٰ کی طرف سے ایک اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نزول ساعتِ موعودہ کا نظریہ درحقیقت عیسائیوں سے آیا ہے،
 جبکہ انہیں غور فرمانا چاہیئے کہ اناجیل و دیگر کتب سابقہ میں کی متعدد تعلیمات اسلام میں بھی شامل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی متعدد پیشینگوئیاں توریت وانجیل میں مرقوم ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ظن و تخمین کو اپنی دلیل بنانے کی بجائے علم صریح کی پیروی کریں۔
     ٭ منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم خاتم النبین ہیں لہٰذا نزول عیسیٰ سے ان کی صفت خاتمیت پر زد آتا ہے۔
 لیکن یہ اعتراض بھی غیر دانشمندانہ ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہورِثانی بحیثیت نبی کے نہیں ہوگا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی “شان خاتمیت“ تو اس امر سے واضح ہے کہ
“والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فا تبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل و لو کان حیاً و ادرک نبوتی لاتبعنی“ (رواہ  الدارمی  فی  کتاب  المقدمة)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر تمہارے درمیان موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم سب ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو یقینا تم سیدھی راہ سے گمراہ ہوجائو گے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میرے (زمانۂ) نبوّت کو پاتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔
جبکہ عیسیٰ علیہ السلام صاحبِ شریعت نبی بھی نہیں ہیں، ان کا دورِ اول “شریعت موسوی“ کی تبلیغ میں گزرااور اب دورِثانی “تجدید شریعت محمدی” کے لیے وقف ہوگا۔ نیز بحیثیت نبی ان کا نزولِ ثانی نصِ قرآنی کے بھی خلاف ہے کیونکہ اللہ ربّ العزت نے (وَ رَسُوْلاً  اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ) (آل عمران :49) فرما کر ان کی رسالت کو صرف بنی اسرائیل کے لیے خاص فرمادیا ہے۔ لہٰذا ان کا نزولِ ثانی بحیثیت امام عادل یا بالفاظِ دیگر امتِ محمدیہ کے آخری مجددِ کامل کی حیثیت سے ہوگا۔

    بلاشبہ روایات میں نزول مسیح علیہ السلام کی خبر دی گئی ہے اور صحیحین کی روایات اس باب میں معلوم ومشہور ہیں۔ اس سے کسے انکار ہے لیکن اس معاملہ کا تعلق قیامت کے آثار و مقدمات سے ہے نہ کہ تکمیل دین کے معاملہ سے نیز انہی روایات میں تصریحات موجود ہیں کہ حضرت مسیح کا نزول بہ حیثیت رسول کے نہیں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں اس تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ یہی رہا ہے کہ دین ناقص نہیں اور اپنے تکمیل کے لیے کسی نئے ظہور کا محتاج نہیں۔
 “صحیح بخاری“ کی حدیث کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت “حکماً مقسطاً” ہوگا نہ کہ بحیثیت نبی۔ (صحیح البخاری، کتاب، باب کسر الصلیب و قتل الخنزیر)
     ٭منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی ہوتا ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام فطرت کے خلاف ہے اور (لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲ)
 لیکن ان کے بارگاہِ عقل و فکر میں اس عاجز کا عاجزانہ سوال یہ ہے کہ وہ ربِ تعالیٰ کی خلقت اور قدرت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ جو وہ یوں فیصلے صادر کریں؟ أفلا یتدبرون۔

یہاں یہ ذکر بے محل نہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سری نگر میں ہوئی تھی اور وہیں ان کی قبر بھی موجود ہے۔ اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں اس نے ایک کتاب موسوم بہ “مسیح ہندوستان میں” لکھی۔ نیز اپنی کتاب “کشتی نوح“ میں لکھتا ہے:
    “مسیح فوت ہوچکا اور سری نگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے۔” (ص 103)
 اوراس قبر کی تائید میں اس نے ایک یہودی عالم کی تائید نقل کی ہے اور “شہد شاہد من بنی اسرائیل- ایک اسرائیلی عالمِ توریت کی شہادت دربارئہ قبر مسیح “کے عنوان کے تحت وہ تائیدی عبارت حسب ذیل ہے:
     “میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا ایک نقشہ پاس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور تحقیق وہ صحیح ہے قبر بنی اسرائیل کی قبروں میں سے، اور وہ ہے بنی اسرائیل کے اکابر کی قبروں میں سے اور میں نے دیکھا یہ نقشہ آج کے دن جب لکھی میں نے یہ شہادت ماہ انگریزی جون 12، 1899 ئ۔ سلمان یوسف یسحاق تاجر۔” (ص 103)
 قارئین گرامی غور فرمائیں دعویٰ سیدنا مسیح علیہ السلام کی قبر کا ہے اور دلیل بنی اسرائیل کے اکابر کی ایک قبر سے دی جارہی ہے۔ مرزا صاحب کے اس دعویٰ کی تردید میں مولانا عبد الحلیم شرر اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے قلمی کاوش کی ہے، جس سے مرزا صاحب کاابطال ہوجاتا ہے۔
ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی امت کو چھوڑ کر کشمیر کی وادیوں میں چلے جانا خود ان کے منصبِ نبوت کے بھی خلاف ہے، بقول خود:
      و قال اﷲ تعالیٰ فی القرآن: ( وَ رَسُوْلاً  اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ) (آل عمران : 49)
اب ذرا مرزا صاحب کی دریافت کردہ قبر کی حقیقت بھی سنتے چلیے۔ جناب بشیر احمد صاحب اپنی کتاب “بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم“ میں لکھتے ہیں:
    “کشمیر کا مولوی عبد اﷲ وکیل جس کا ذکر مرزا صاحب کی کتاب رازِ حقیقت میں موجود ہے اور جس نے کشمیر میں قبر مسیح کے مفروضے کو تقویت دینے کے لیے شواہد اکٹھے کیے بہائی مبلغ بن گیا۔ مرزا قادیانی نے جب دعویٰ کیاکہ اس کو خدا نے وحی کی ہے کہ خانیار سری نگر میں حضرت عیسیٰ کی قبر موجود ہے تو اس کے جواب میں عبد اﷲ وکیل نے ایک کتابچہ شائع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ صریح جھوٹ ہے اس جعلی نظریے کا خالق ہی وہ اور خلیفہ نوردین جمونی تھے۔” (بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم: 224، مطبوعہ اسلامک اسٹڈی فورم راولپنڈی)
نتیجہ دلائل:
سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نزول سے متعلقہ دلائل سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کا نزول بہ ساعتِ موعودہ حق ہے اور اس کا انکار محض وادی جہل و ضلالت میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہے۔ انسانی ایمان کی خوبی یہ نہیں ہے کہ جو امور اس کی مزعومہ فکر وفہم کے مطابق ہو اسے قبول کرلے اور جو امور اس کے نزدیک خلاف فطرت وامر مستبعاد ہو اس کا انکار کردے۔ بلکہ کمال ایمان تو یہ ہے کہ ہر وہ امر جو “نصوص صریحہ” سے ثابت ہو اسے تسلیم کرلے، خواہ اس کی عقل تائید کرے یا نہ کرے کیونکہ ایمان تسلیم و تصدیق کا نام ہے آزمائش و پیمائش کا نہیں۔
ایک ذاتی تاثر
قرآن پاک کی تفسیر وتفہیم محض زورِ علمی سے ممکن نہیں، اس کے لیے کسی صاحبِ ذوق کا ہونابہت ضروری ہے جس کا دل رب تعالیٰ کی خشیت سے لرزاں وترساں ہواور جس کی زندگی تقویٰ شعاری سے مزین ہو، گناہگار قلوب اس کے قطعا مستحق نہیں ہوسکتے کہ وہ کلام الٰہی کی تفسیر میں اپنے زورِ فکر وفہم کو لگائیں۔ مجھے اپنے عجز کا مکمل اعتراف ہے، میری حیثیت تو اس قدر بھی نہیں کہ صاحبان زہد وتقویٰ کا خدمت گزار ہی بن سکوں۔ بایں ہمہ اس اعتراف ذاتی کے بعد ( اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَ اﷲِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ) سے متعلق اپنے ایک ذاتی تأثر کو نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رہائش دی پھر انہیں دنیا میں اتارا اس طرح انہوں نے “توفی بالموت” سے قبل دو عالم دیکھے۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کا ہے ان کی ولادت دنیا میں ہوئی پھر ان کا رفع الی السماء ہوا اب ان کا دوبارہ نزول ہوگا تاکہ ( کل نفس ذائقة الموت ) کا الٰہی حکم ان پر وارد ہو۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی “توفی بالموت” سے قبل دو عالم ملاحظہ فرمائے۔ یہ بھی کیا دلچسپ اتفاق ہے کہ سیدنا آدم “آغازِ تخلیق دنیا“ کا سر عنوان ہیں اور سیدنا مسیح علیہ السلام “خاتمہ تخلیق دنیا” کی ایک علامت۔
ھذا ماعندی والعلم عند اﷲ۔

Nazool ka matlab kya hay yay samajhnay kay lyay haemin Quran-e-Majid mein lafzay Nazool ka zikar dekhna paray ga kay kaisay hua hay
 وَظَلَّلْنَا عَلَیۡکُمُ الْغَمَامَ وَاَنۡزَلْنَا عَلَیۡکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی- سورہ البقرہ، آیت 58
 ترجمہ کنزالایمان- اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا  اور تم پرمنْ اور َسلْویٰاتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں
 فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوْلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمْ فَاَنۡزَلْنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفْسُقُوۡنَ﴿سورہ البقرہ، آیت59

ترجمہ کنزالایمان- تو ظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سوا  تو ہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حُکمی کا
 وَلَقَدْ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۚ وَمَا یَکْفُرُ بِہَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوۡنَ﴿ سورہ البقرہ ، آیت 99
 ترجمہ کنزالایمان- اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں اور ان کے منکر نہ ہوں گے مگر فاسق لوگ
 اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکْتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنۡۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ﴿ سورہ البقرہ ، آیت 159
 ترجمہ کنزالایمان- بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں  بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ہیں ان پر اللّٰہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت
 اِنَّاۤ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللہُ ؕ وَلَا تَکُنۡ لِّلْخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا  ﴿ سورہ النساء ، آیت 105
    ترجمہ کنزالایمان-  اے محبوب بے شک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاریکہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللّٰہ دکھائے  اور دغا والوں کی طرف سے نہ جھگڑو
 پس ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ نزول کی معنی آسمان سے  اتارنا ہی ہے 
(قادیانی مرتد پر خدائی خنجر)
(مسئلہ حیاتِ عیسٰی علیہ السلام )
مرزا قادیانی صدہا درجہ سے منکر ضروریاتِ دین تھا اور اس کے پس ماندے حیات و وفاتِ سیدنا عیسٰی رسول اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ صلوات اﷲ وتسلیمات اﷲ کی بحث چھیڑتے ہیں، جو ایک فرعی مسئلہ خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئلہ ہے جس کا اقرار یا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں (فائدہ نمبر ۴میں آئے گا کہ نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے) نہ ہرگز وفاتِ مسیح ان مرتدین کو مفید، فرض کر دم کہ رب عزوجل نے ان کو اس وقت وفات ہی دی، پھر اس سے انکا نزول کیونکر ممتنع ہوگیا؟ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت محض ایک آن کو تصدیق وعدہ الہٰیہ کے لئے ہوتی ہے، پھر وہ ویسے ہی حیاتِ حقیقی دنیاوی و جسمانی سے زندہ ہوتے ہیں جیسے اس سے پہلے تھے، زندہ کا دوبارہ تشریف لانا کیا دشوار؟ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  فرماتے ہیں:اَلْاَ نْبِیاءُ اَحْیاء فِیْ قُبُوْرِھِمْ یصلُّوْنَ۱؎ترجمہ : انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں، نماز پڑھتے ہیں۔
(۱ ؎ مسند ابو یعلٰی مروی از انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ حدیث ۳۴۱۲، موسسہ علوم القرآن بیروت۳/ ۳۷۹)
(۲) معاذاﷲ کوئی گمراہ بددین یہی مانے کہ ان کی وفات اوروں کی طرح ہے جب بھی ان کا دوبارہ تشریف لانا کیوں محال ہوگیا؟ وعدہوَحَرَام عَلٰی قَرْیۃ اَھْلَکْنٰھَا اَنَّھُمْ لَا یرجِعُوْنَ ۲؂۔(اور حرام ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کردیا کہ پھر لوٹ کر آئیں۔ت)
(۲؂القرآن الکریم ۲۱/ ۹۵)
ایک شہر کے لئے ہے، بعض افراد کا بعد موت دنیا میں پھر آنا خود قرآن کریم سے ثابت ہے جیسے سیدنا عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔قال اﷲ تعالٰی:فَاَ مَاتَہُ اﷲ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ ط ۳؂ (تو اﷲ نے اسے مردہ رکھا سو برس، پھر زندہ کردیا۔ت)
(۳؂القرآن الکریم۲/ ۲۵۹)
چاروں طائرانِ خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام، قال اﷲ تعالٰی:ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِنْھُنَّ جُزْءً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یاتِینکَ سَعْیا۴؂(پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے، پھر انہیں بلا، وہ تیرے پاس چلے آئیں گے دوڑتے ہوئے۔ت)
(۴؂القرآن الکریم ۲/ ۲۶۰)
ہاں مشرکین ملاعنہ منکرین بعث اسے محال جانتے ہیں اور دربارہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیانی بھی اس قادر مطلق عزّ جلالہ کو معاذ اﷲ صراحۃً عاجز مانتا اور دافع البلاء کے صفحہ ۳۴ پر یوں کفر بکتا ہے: خدا ایسے شخص کو پھر دنیا میں نہیں لا سکتا جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کردیا ہے۵؂۔
(۵؂دافع البلاء  مطبوعہ ربوہ  ص ۳۴)
مشرک و قادیانی دونوں کے رد میں اﷲ عزوجل فرماتا ہے:اَفَعَیینَا بِا لْخَلْقِ الْاَوَّلِ بَلْ ھُمْ فیِ لَبِسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِید۱؂۔ (تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شُبہ میں ہیں۔ت)
(۱؂القرآن الکریم ۵۰/ ۱۵)
جب صادق و مصدوق صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کے نزول کی خبر دی اور وہ اپنی حقیقت پر ممکن و داخل زیر قدر ت و جائز، تو انکار نہ کرے گا مگر گمراہ۔
(
۳) اگر وہ حکم افراد کو بھی عام مانا جائے تو موت بعدِ استیفائے اجل کے لئے ہے، اس سے پہلے اگر کسی وجہ خاص سے اماتت ہو تو مانع اعادت نہیں بلکہ استیفائے اجل کے لئے ضرور اور ہزاروں کے لئے ثابت ہے، قال اﷲ تعالٰی:اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِین خَرَجُوْا مِنْ دِیارِھِمْ وَھُمْ اُلُوف حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اﷲ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیاھُمْ۲؂
(۲؂القرآن الکریم ۲/ ۲۴۳)
(اے محبوب ! کیا تم نے نہ دیکھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اﷲ نے ان سے فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زندہ فرمادیا۔ت)
قتادہ نے کہا:اَمَا تَھُمْ عُقُوْبَۃً ثُمَّ بُعِثُوْا لِیتوَفَّوْا مُدَّۃَ اٰجَا لِھِمْ وَلَوْ جَآءَ تْ اٰجَا لُھُمْ مَا بُعِثُوْا۔(معناً) 
۳؎ (اﷲ تعالٰی نے ان کو سزا کے طور پر موت دی پھر زندہ کر دئیے گئے تاکہ اپنی مقررہ عمر کو پورا کریں، اگر ان کی مقررہ عمر پوری ہوجاتی تو دوبارہ نہ اٹھائے جاتے۔ت)
(۳؎جامع البیان (تفسیر ابن جریر طبری) القول فی تاویل قولہ تعالٰی الم تر الی الذین الآیۃ المطبعۃ المیمنہ مصر۲/ ۳۴۷)
(۴) اس وقت حیات و وفاتِ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مسئلہ قدیم سے مختلف چلا آتا ہے مگر آخر زمانے میں ان کے تشریف لانے اور دجّال لعین کو قتل فرمانے میں کسی کو کلام نہیں، یہ بلا شبہ اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے تو وفات مسیح نے قادیانی کو کیا فائدہ دیا اور مغل بچہ، عیسٰی رسول اﷲ بے باپ سے پیدا ابن مریم کیونکر ہوسکا؟ قادیانی اس اختلاف کو پیش کرتے ہیں، کہیں اس کا بھی ثبوت رکھتے ہیں کہ اس پنجابی کے ابتداع فی الدین سے پہلے مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ عیسٰی آپ تو نہ اتریں گے کوئی ان کا مثیل پیدا ہوگا، اسے نزول عیسٰی فرمایا گیا اور اس کو ابن مریم کہا گیا؟ اور جب یہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف ہے تو آیہ: یتبِعْ غَیر سَبِیلالْمُؤْمِنِین نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا۴؂
(۴؂القرآن الکریم ۴/ ۱۱۵)
(مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کرینگے اور کیا ہی بُری جگہ پلٹنے کی۔ت) کا حکم صاف ہے۔
(
۵) مسیح سے مثیل مسیح مراد لینا تحریف نصوص ہے کہ عادتِ یہود ہے، بے دینی کی بڑی ڈھال یہی ہے کہ نصوص کے معنی بدل دیںیحرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۱؂
(۱؂القرآن الکریم ۵/ ۱۳)
(اﷲ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدل دیتے ہیں۔ت) ایسی تاویل گھڑنی نصوصِ شریعت سے استہزاء اور احکام وارشادات کو درہم برہم کر دینا ہے، جس جگہ جس شئی کا ذکر آیا، کہہ سکتے ہیں وہ شیئ خود مراد نہیں اس کا مثیل مقصود ہے، کیا یہ اس کی نظیر نہیں جو اباحیہ مُلا عِنہ کہا کرتے ہیں کہ نماز و روزہ فرض ہے نہ شراب و زنا حرام بلکہ وہ کچھ اچھے لوگوں کے نام ہیں جن سے محبت کا ہمیں حکم دیا گیا اور یہ کچھ بدوں کے جن سے عداوت کا ۔
(۶)بفرضِ باطل اینہم برعَلَم پھر اس سے قادیان کا مرتد، رسول اﷲ کا مثیل کیونکر بن بیٹھا؟ کیا اس کے کفر، اس کے کذب، اس کی وقاحتیں، اس کی فضیحتیں، اس کی خباثتیں، اس کی ناپاکیاں، اس کی بیباکیاں کہ عالم آشکار ہیں، چھپ سکیں گی؟ اور جہان میں کوئی عقل و دین والا ابلیس کو جبریل کا مثیل مان لے گا؟ اس کے خرو ارِہزار ہا کفریات سے مُشتے نمونہ، رسائل السوء والعقاب علی المسیح الکذاب وقہر الدیان علٰی مرتدٍ بقادیان و نور الفرقان و باب العقائد والکلام وغیرہا میں ملا حظہ ہوں کہ یہ نبیوں کی علانیہ تکذیب کرنے والا، یہ رسولوں کو فحش گالیاں دینے والا، یہ قرآن مجید کو طرح طرح رد کرنے والا، مسلمان بھی ہونا محال، نہ کہ رسول اﷲ کی مثال، قادیانیوں کی چالاکی کہ اپنے مسیلمہ کے نامسلم ہونے سے یوں گریز کرتے اور اس کے ان صریح ملعون کفروں کی بحث چھوڑ کر حیات و وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑتے ہیں۔
(۷) مسیح رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشہور اوصافِ جلیلہ اور وہ کہ قرآن عظیم نے بیان کئے، یہ تھے کہ اﷲ عزّوجل نے ان کو بے باپ کے کنواری بتول کے پیٹ سے پیدا کیا نشانی سارے جہان کے لئے: قَالَتْ اَنّٰی یکوْنُ لِیْ غُلٰم وَّلَمْ یمسَسنِی بَشَر وَّلَمْ اَکُ بَغِیاo قَالَ کَذٰلِکِ ط قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَین ط وَّ لِنَجْعَلَہ اٰیۃ لِّلنَّا سِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرَاً مَّقْضِیا۔۲؂
(۲؂القرآن الکریم ۱۹/ ۲۰و۲۱)
بولی میرے لڑکا کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہ لگایا، نہ میں بدکار ہوں، کہا یونہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور اس لئے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ امر ٹھہر چکا ہے۔(ت)
انہوں نے پیدا ہوتے ہی کلام فرمایا:فَنَا دٰھا مِنْ تَحْتِہَا اَلاَّ تحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا
۱؂، الآیۃ۔(۱؂القرآن الکریم ۱۹/ ۲۴)
تو اس کے نیچے والے نے اسے آواز دی کہ تو غم نہ کر، تیرے رب نے تیرے نیچے نہر بہادی ہے۔علی قراء ۃ من تحتہا بالفتح فیہما وتفسیرہ بالمسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام (معناً)۲؎اس قرأ ت پر جس میں مَنْ کی میم مفتوح اور تَحْتَہَا کی دوسری تاء مفتوح ہے اور اس کی تفسیر حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کی گئی ہے۔
(۲ ؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر طبری) القول فی تاویل قولہ تعالٰی فنادٰہا من تحتہا الخ مطبعہ میمنہ مصر۱۶/ ۴۵)
انہوں نے گہوارے میں لوگوں کو ہدایت فرمائی۔یکلم الناس فی المھد وکہلا۳؂
(۳؂القرآن الکریم ۳/ ۴۶)
لوگوں سے باتیں کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں۔(ت)
انہیں ماں کے پیٹ یا گود میں کتاب عطا ہوئی، نبوت دی گئی،قال انی عبداﷲ اٰتٰنی الکتٰب وجعلنی نبیا
۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۱۹/ ۳۰)
بچہ نے فرمایا میں ہوں اﷲ کا بندہ، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔
وہ جہاں تشریف لے جائیں برکتیں ان کے قدم کے ساتھ رکھی گئیں۔ وجعلنی مبٰرکًا اینما کنت
۵؂
اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں۔(ت) برخلاف کفرِطاغیہ قادیان کہ کہتا ہے جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کردیا۔
(۵؂القرآن الکریم ۱۹/ ۳۱)
انہیں اپنے غیبوں پر مسلّط کیا،عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احداo الاّ من ارتضٰی من رسولٍ ۶؂۔
(۶؂القرآن الکریم ۷۲/ ۲۶،۲۷)
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔(ت)
جس کا ایک نمونہ یہ تھا کہ لوگ جو کچھ کھاتے اگرچہ سات کوٹھڑیوں میں چُھپ کر،اور جو کچھ گھروں میں ذخیرہ رکھتے اگرچہ سات تہ خانوں کے اندر، وہ سب ان پر آئینہ تھا۔وانبئکم بما تا کلون وما تدخرون فی بیوتکم
۱؂اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔(ت)
(۱؂القرآن الکریم ۳/ ۴۹)
انہیں تورات مقدس کے بعض احکام کا ناسخ کیا،ومصدقالما بین یدی من التورٰۃ ولاُحل لکم بعض الذی حُرِّم علیکم۲؂اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں۔(ت)
(۲؂القرآن الکریم ۳/ ۵۰)
انہیں قدرت دی کہ مادر زاد اندھے اور لا علاج برص کو شفا دیتے،وتبرئ الاکمہ والابرص باذنی۳؂اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا۔(ت)
(۳؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
انہیں قدرت دی کہ مردے زندہ کرتے،واذ تخرج الموتٰی باذنی۴؂ واُحی الموتٰی باذن اﷲ۵؂اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتا۔اور میں مردے جِلاتا ہوں اﷲ کے حکم سے۔(ت)
(۴؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰) (۵؂القرآن الکریم ۳/ ۴۹)
ان پر اپنے وصفِ خالقیت کا پر تو ڈالا کہ مٹی سے پرند کی صورت خلق فرماتے اور اپنی پھونک سے اس میں جان ڈالتے کہ اُڑتا چلا جاتا،واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیراً باذنی۶؂اور جب تو مٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھراس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا۔(ت)
(۶؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
ظاہر ہے کہ قادیانی میں ان میں سے کچھ نہ تھا پھر وہ کیونکر مثیل مسیح ہوگیا؟
اخیر کی چار یعنی مادر زاد اندھے اور ابرص کو شفاء دینا، مردے جِلانا، مٹی کی مورت میں پھونک سے جان ڈال دینا، یہ قادیانی کے دل میں بھی کھٹکے کہ اگر کوئی پوچھ بیٹھا کہ تو مثیل مسیح بنتا ہے ان میں سے کچھ کر دکھا اور وہ اپنا حال خوب جانتا تھا کہ سخت جھوٹا ملوم ہے اور الٰہی برکات سے پورا محروم، لہٰذا اس کی یوں پیش بندی کی کہ قرآن عظیم کو پسِ پشت پھینک کر رسول اﷲ کے روشن معجزوں کو پاؤں تلے مل کر صاف کہہ دیا کہ معجزے نہ تھے مسمریزم کے شعبدے تھے، میں ایسی باتیں مکروہ نہ جانتا تو کر دکھاتا، وہی ملاعنہ مشرکین کا طریقہ اپنے عجز پریوں پردہ ڈالنا کہلو نشاء لقلنا مثل ھذا
۱؂اگر ہم چاہتے تو ایسا کلام کہتے۔
(۱؂القرآن الکریم ۸/ ۳۱)
ہم چاہتے تو اس قرآن کا مثل تصنیف کر دیتے، ہم خود ہی ایسا نہیں کرتے، الا لعنۃ اﷲ علی الکٰفرین۔
قادیانی خَذَ لَہُ اﷲ کے ازالہ اوہام ص 
۳،۴،۵ و نوٹ آخر میں ۱۵۱ تا آخر صفحہ ۱۶۲ ملا حظہ ہوں جہاں اس نے پیٹ بھر کر یہ کفر بکے ہیں یا ان کی تلخیص رسالہ قہر الدیان ص ۱۰ تا ۱۵ مطالعہ ہوں، یہاں دو چار صرف بطور نمونہ منقول:
ملعون ازالہ ص 
۳: احیاءِ جسمانی کچھ چیز نہیں۔
ملعون ازالہ ص 
۴: کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا۔
ملعون ازالہ ص 
۱۵۱ عہ) شعبدہ بازی اور دراصل بے سود، عوام کو فریفتہ کرنے والے مسیح اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس تک نجاری کرتے رہے، بڑھئی کا کام درحقیقت ایسا ہے جس میں کلوں کے ایجاد میں عقل تیز ہوجاتی ہے، بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز کرتی ہیں، بمبئی کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں، یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے اعجاز مسمریزمی بطور لہو و لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں، سلبِ امراض مسمریزم کی شاخ ہے ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جو اس سے سلبِ امراض کرتے ہیں، مبروص ان کی توجہ سے اچھے ہوتے ہیں، مسیح مسمریزم میں کمال رکھتے تھے،یہ قدر کے لائق نہیں، یہ عاجز اس کو مکروہ قابل نفرت نہ سمجھتا تو ان عجوبہ نمائیوں میں ابن مریم سے کم نہ رہتا، اس عمل کا ایک نہایت بُرا خاصہ ہے جو اپنے تئیں اس میں ڈالے روحانی تاثیروں میں بہت ضعیف اورنکّما ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل (مسمریزم) سے اچھا کرتے، مگر ہدایت توحید اور دینی استقامتوں کے دلوں میں قائم کرنے میں ان کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے، ان پرندوں میں صرف جھوٹی حیات، جھوٹی جھلک نمودار ہوجاتی تھی، مسیح کے معجزات اس تالاب کی وجہ سے بے رونق بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے پہلے مظہرِ عجائبات تھا، بہرحال یہ معجزہ صرف ایک کھیل تھا جیسے سامری کا گوسالہ۔
عہ: ازالہ اوہام، مطبع ریاض الہند ص 
۱۲۱۔۱۱۳
مسلمانو! دیکھا، ان ملعون کلمات میں وہ کون سی گالی ہے جو رسول اﷲ کو نہ دی اور وہ کونسی تکذیب ہے جو آیاتِ قرآن کی نہ کی، اتنے ہی جملوں میں تینتیس(۳۳) کفر ہیں۔
بہرحال یہ تو ثابت ہوا کہ یہ مرتد مثیل مسیح نہیں،مسلمانوں کے نزدیک یوں کہ وہ نبی مرسل اولواالعزم صاحب معجزات وآیات بینات، اور یہ مردود و مطرود و مرتد وموردِ آفات، اور خود اس کے نزدیک یوں کہ معاذاﷲ وہ شعبدہ باز بھانمتی مسمریزمی تھے، روحانی تاثیروں میں ضعیف نکمّے اوریہ ڈال کا ٹوٹا مقدس مہذب برگزیدہ ہادی، الا لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین خبردار! ظالموں پر خدا کی لعنت۔(ت)
ہاں ایک صورت ہے، اس نے اپنے زعمِ ملعون میں مسیح کے یہ اوصاف گنے، دافع البلاء ص 
۴: مسیح کی راستبازی اپنے زمانے میں دوسروں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحیٰی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ (یحیٰی) شراب نہ پیتا تھا، کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ نے اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی، اسی وجہ سے خدا نے یحیٰی کا نام حصور رکھا مسیح نہ رکھا کہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔۱؎
(۱ ؎ دافع البلاء مطبع ضیاء الاسلام،قادیان ص ۶۔۵)
ضمیمہ انجام آتھم ص ۷   :    آپ (یعنی عیسٰی) کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے (یعنی عیسٰی بھی ایسوں ہی کی اولاد تھے) ورنہ کوئی پرہیزگار ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگائے، زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے، اپنے بال اس کے پیروں پر ملے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔
ص
۶:حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا۔
ص
۷: آپ کے ہاتھ میں سوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا، آپ کا خاندان بھی نہایت ناپاک ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا۔ یہ پچاس کفر ہوئے۔
نیز اسی رسالہ ملعونہ میں ص 
۴ سے ۸ تک بحیلہ باطلہ مناظرہ خود ہی جلے دل کے پھپھولے پھوڑے، اﷲ عزوجل کے سچے رسو ل مسیح عیسٰی بن مریم کو نادان، شریر، مکار، بدعقل، زنا نے خیال والا، فحش گو، بدزبان، کٹیل، جھوٹا،چور، علمی عملی قوت میں بہت کچاّ، خلل دماغ والا، گندی گالیاں دینے والا، بدقسمت، نرافریبی، پیروِشیطان وغیرہ وغیرہ خطاب اس قادیانی دجّال نے دئیے اور اس کے تین کفر اوپر گزرے کہ اﷲ مسیح کو دوبارہ نہیں لا سکتا، مسیح فتنہ تھا، مسیح کے فتنے نے تباہ کردیا۔ یہ سب ستر کفر ہوئے اور ہزاروں ستر کی گنتی کیا، غرض تیس سے اوپر اوصاف اس دجّال مرتد نے اپنے مزعوم مسیح میں بتائے، اگر قادیانی خود اپنے لئے ان میں سے دس وصف بھی قبول کرلے کہ یہ شخص یعنی یہی قادیانی بدچلن، بدمعاش، فریبی، مکّار، زنانے خیال والا، کٹیل بھی جھوٹا، چور، گندی گالیوں والا، ابلیس کا چیلہ، کنجریوں کی اولاد، کسبیوں کا جنا ہے، زنا کے خون سے بنا ہے، تو ہم بھی اس کی مان لیں گے کہ یہ ضرور مثیل مسیح ہے مگر کون سے مسیح کا؟ اسی مسیح قبیح کا جو اس کا موہوم و مزعوم ہے، الالعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین۔
    مسلمانو! یہ سات فائدے محفوظ رکھئے، کیسا آفتاب سے زیادہ روشن ہوا کہ قادیانیوں کا مسئلہ وفات وحیاتِ مسیح چھیڑنا کیسا ابلیسی مکر، کیسی عبث بحث، کیسی تضییع وقت، کیسا قادیانی کے صریح کفروں کی بحث سے جان چھڑانا اور فضول زق زق میں وقت گنوانا ہے!
اس کے بعد ہمیں حق تھا کہ ان ناپاک وبے اصل و پا،در ہوا شبہوں کی طرف التفات بھی نہ کرتے جو انہوں نے حیاتِ رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام پر پیش کئے، ایسی مہمل عیاریوں کیادیوں کا بہتر جواب یہی تھا کہ ہشت۔ پہلے قادیانی کے کفر اٹھاؤ یا اسے کافر مان کر توبہ کرو، اسلام لاؤ، اس کے بعد یہ فرعی مسئلہ بھی پوچھ لینا مگر ہم ان مرتدین سے قطع نظر کر کے اپنے دوست سائل سُنّی المذہب سے جوابِ شبہات گزارش کرتے ہیں، وَبِاﷲِ التَّوْفِیق۔
پہلا شُبہ:
کریمہ والذین یدعون من دُون اﷲ ا لاٰیۃ۔
اقول اولاً  : یہ شبہ مرتدانِ حال نے کافرانِ ماضی سے ترکہ میں پایا ہے، جب آیہ کریمہ:انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جھنم انتم لھا واردون۱؂نازل ہوئی کہ بیشک تم اور جوکچھ تم اﷲ کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کے ایندھن ہو تمہیں اس میں جانا ہے۔ مشرکین نے کہا کہ ملائکہ اور عیسٰی اور عزیر بھی تو اﷲ کے سوا پوجے جاتے ہیں، اس پر رب عزوجل نے ان جھگڑالو کا فروں کو قرآن کریم کی مراد بتائی کہ آیت بتوں کے حق میں ہے۔
(۱؂القرآن الکریم ۲۱ / ۹۸)
اِنّ الذین سبقت لھم منّا الحسنٰی ط اولٰئک عنہا مُبعدونo لا یسمعون حسیسھا۱؂۔ (۱؂القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۱ و۱۰۲)
ترجمہ : بیشک وہ جن کے لئے ہمارا بھلائی کا وعدہ ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ اس کی بھنک تک نہ سنیں گے۔ قرآن کریم نے خود اپنا محاورہ بتایا جب بھی مرتدوں نے وہی راگ گایا۔ ابوداؤد کتاب الناسخ والمنسوخ میں اور فریابی عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم طبرانی و ابن مردویہ اور حاکم مع تصحیح مستدرک میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی:لمّا نزلت انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جہنم انتم لہا واردون فقال المشرکون الملٰئکۃُ وعیسٰی وعزیر یعبَدون من دون اﷲ فنزلت ان الذین سبقت لھم منا الحسنٰی اولئک عنہا مُبعدون۲؎ جب یہ آیت نازل ہوئی ۔اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ (الاٰیۃ) تو مشرکین نے کہا ملائکہ، حضرت عیسٰی اور حضرت عزیر کو بھی اﷲ تعالٰی کے سوا پوجا جاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی ان الذین سبقت (الاٰیۃ) بیشک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔
(۲ ؎ المستدرک کتاب التفسیر تفسیر سُورہ انبیاء دارالفکربیروت ۲/ ۳۸۵)
ثانیاً یدعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ یقینا مشرکین ہیں اور قرآنِ عظیم نے اہل کتاب کو مشرکین سے جدا کیا، ان کے احکام ان سے جدا رکھے، ان کی عورتوں سے نکاح صحیح ہے مشرکہ سے باطل، اِن کا ذبیحہ حلال ہوجائے گا، اُن کا مردار، قال اﷲ تعالٰی:لم یکن الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین منفکّین حتٰی تاتیھم البینۃ۳؂ (۳؂القرآن الکریم ۹۸/ ۱)
(کتابی کافر اور مشرک اپنا دین چھوڑنے کو نہ تھے جب تک ان کے پاس دلیل نہ آئے۔ت)
وقال اﷲ تعالٰی:ان الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین فی نارجھنّم خٰلدین فیھا اولٰئک ھم شرّالبریۃ۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۹۸/ ۶)
بیشک جتنے کافر ہیں کتابی اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے، وہی تمام مخلوق سے بدتر ہیں(ت)۔
وقال اﷲ تعالٰی: ما یودّ الذین کفروا من اھل الکتٰب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۱؂
(۱؂القرآن الکریم ۲/ ۱۰۵)
(وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک، وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کے پاس سے۔ت)وقال اﷲ تعالٰی: لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین اٰمنوا الیہود والذین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودّۃ للذین اٰمنو الذین قالوا انا نصارٰی۲؂ (۲؂القرآن الکریم ۵/ ۸۲)
ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جنہوں نے کہا کہ بیشک ہم نصارٰی ہیں ت۔
وقال اﷲ تعالٰی:الیوم احل لکم الطیبٰت وطعام الذین اوتواالکتٰب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنٰت من المؤمنٰت والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم۳؂ (۳؂القرآن الکریم ۵/۵)
(آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی۔ت)ولا تنکحوا المشرکٰت حتی یؤمن۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۲/ ۲۲۱)
(اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں۔ت)
جب قرآن عظیم “ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ” میں نصارٰی کو داخل نہیں فرماتا اس “اَلَّذِین” میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کیونکر داخل ہوسکیں گے؟
ثالثاً سورت مکیہ ہے اور سوائے عاصم، قُراءِ سبعہ کی قرأت “تَدْعُوْنَ “بہ تائے خطاب،تو بُت پرست ہی مراد ہیں اور” اَلَّذِین یدعُونَ اَصْنَامٌ” (جنہیں وہ پوجتے ہیں وہ بُت ہیں۔ت)
رابعاً خود آیہ کریمہ طرح طرح دلیل ناطق کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء عموماً اور حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والتسلیم خصوصاً مراد نہیں، جہاں فرمایااَمْوَات غَیر اَحْیاءٍ
۱؂ (۱؂القرآن الکریم ۱۶/ ۲۱)
(مردے ہیں زندہ نہیں۔ت) اموات سے متبادریہ ہوتا ہے کہ پہلے زندہ تھے پھر موت لاحق ہوئی لہٰذا ارشاد ہوا “غَیر اَحْیاءٍ” یہ وہ مردے ہیں کہ نہ اب تک زندہ ہیں نہ کبھی تھے نرِے جماد ہیں، یہ بتوں ہی پر صادق ہے،
تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ہے: حیث کان بعض الاموات ممّا یعتریہ الحیاۃ سابقا اولاحقا کاجساد الحیوان والنطف التی ینشئھا اﷲ تعالٰی حیوانا احترز عن ذٰلک فقیل غیر احیاءٍ ای لا یعتریھا الحٰیوۃ اصلا فھی اموات علی الاطلاق 
۲؎ بعض اموات وہ تھے جنہیں زندگی حاصل تھی جیسے مردہ حیوان کا جسم، اور بعض وہ ہیں جنہیں زندگی ملنے والی ہے مثلاً نطفہ جسے اﷲ تعالٰی مستقبل میں حیوان بنائے گا اس لئے ایسے اموات سے احتراز کیا اور فرمایا غیر احیاء یعنی یہ وہ اموات ہیں جنہیں زندگانی (ماضی یا مستقبل میں) بالکل حاصل نہیں لہٰذا یہ علی الاطلاق اموات ہیں۔
(۲ ؎ ارشاد العقل السلیم (تفسیر ابی السعود) آیۃ ۱۶/ ۲۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۰۶)
خامساً رب عزوجل فرماتا ہے:ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا ط بل احیاء عند ربھم یرزقونo فرحین بما اٰتٰھم اﷲ من فضلہ۳؂(۳؂القرآن الکریم ۳/ ۱۶۱)
خبردار! شہیدوں کو ہرگز مردہ نہ جا نیو بلکہ وہ اپنے رب کے یہاں زندہ ہیں، روزی پاتے ہیں، اﷲ نے جو اپنے فضل سے دیا اس پر خوش ہیں۔
اور فرماتا ہے:ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات ط بل احیاء ولکن لا تشعرون۴؂۔ (۴؂القرآن الکریم ۲/ ۱۵۶)
جو اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیںمردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں تمہیں خبر نہیں۔
محال ہے کہ شہید کو تو مردہ کہنا حرام، مردہ سمجھنا حرام اور انبیاء معاذ اﷲ مردے کہے سمجھے جائیں، یقینا قطعاً ایماناً وہ “اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ” (زندہ ہیں مردے نہیں۔ت) ہیں نہ کہ عیاذًا باﷲ “اموات غَیر اَحْیاءٍ” (مردے ہیں زندہ نہیں۔ت) جس وعدہ الٰہیہ کی تصدیق کے لئے ان کو عروضِ موت ایک آن کے لئے لازم ہے قطعاً شہداء کو بھی لازم ہے۔کلّ نفس ذائقۃ الموت
۵؂ (۵؂ القرآن الکریم ۲۱/ ۳۵)
(ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ت)
پھر جب یہ” اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ” ہیں وہ یقینا ان سے لاکھوں درجے زائد “اَحْیا ء غَیر امواتٍ” ہیں نہ کہ “اَمْوات غَیر اَحْیاءٍ”۔
سادساً آیہ کریمہ میں “وَھُمْ قَدْ خُلِقُوْا” بصیغہ ماضی نہیں بلکہوَھُمْ یخلَقُوْنَ
۱؂(۱؂القرآن الکریم ۱۶/ ۲۰)
بصیغہ مضارع ہے کہ دلیل تجدّد واستمرار ہو یعنی بنائے گھڑے جاتے ہیں اور نئے نئے بنائے گھڑے جائیں گے، یہ یقینا بُت ہیں۔
سابعاً آیہ کریمہ میں ان سے کسی چیز کی خلق کا سلبِ کُلّی فرمایا کہلاَیخلُقُوْنَ شَیئاً۲؂ (وہ کوئی چیز نہیں بناتے۔ت)
(۲؂القرآن الکریم ۱۶/ ۲۰)
اور قرآن عظیم نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بعض اشیاء کی خلق ثابت فرمائی،واِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّین کَھَیئَۃِ الطَّیر۳؂۔(۳؂القرآن الکریم ۵/ ۱۱۰)
(اور جب تو مٹی سے پرند کی مورت بناتا) اور ایجاب جزئیِ نقیض سلبِ کُلیّ ہے تو عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر صادق نہیں، نامناسب سے قطع نظر ہو تو اَمْوَات قضیہ مطلقہ عامہ ہے یا دائمہ  بر تقدیر ثانی یقینا انس وجن وملک سے کوئی مراد نہیں ہوسکتا کہ ان کیلئے حیات بالفعل ثابت ہے نہ کہ ازل سے ابد تک دائم موت، برتقدیر اوّل قضیہ کا اتنا مفاد کہ کسی نہ کسی زمانے میں ان کو موت عارض ہو، یہ ضرور عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام سب کے لئے ثابت، بیشک ایک وقت وہ آئے گا کہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پائیں گے اور روز قیامت ملائکہ کو بھی موت ہے، اس سے یہ کب ثابت ہوا کہ موت ہوچکی، ورنہ “ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ” میں ملائکہ بھی داخل ہیں، لازم کہ وہ بھی مر چکے ہوں، اور یہ باطل ہے۔
تفسیر انوارالتنزیل میں ہے: (اَمْوَات) حالاً اوماٰلاً غیر احیاءٍ بالذَّاتِ لیتناول کُلَّ معبودٍ۴؎ (مردے حال میں یا آئندہ غیر زندے بالذات تاکہ ہر معبود کو شامل ہو۔ت)
(۴؎ انوارالتنزیل (تفسیر بیضاوی) آیۃ ۱۶/ ۲۱ مصطفٰی البابی مصر،۱/ ۲۷۰)
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے:فالمراد مالا حٰیوۃ لہ سواء کان لہ حٰیوۃ ثم مات کعزیر او سیموت کعیسٰی والملٰئکۃ علیھم السلام اولیس من شانہ الحٰیوۃ کالا صنام۵؎یعنی  ان اموات سے عام مراد ہے خواہ اس میں حیات کی قابلیت ہی نہ ہو جیسے بت، یا حیات تھی اور موت عارض ہوئی جیسے عزیر، یا آئندہ عارض ہونے والی ہے جیسے عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔
(۵؎ عنایۃ القاضی حاشیۃ الشہاب علی تفسیر البیضاوی آیۃ ۱۶/ ۲۱، دار صادر بیروت، ۵/ ۳۲۲)
منکرین دیکھیں کہ ان کا شبہ ہر پہلو پر مردود ہے، وﷲ الحمد۔
شُبہ دوم:
لَعَنَ اﷲُ الْیھوْدَ وَالنَّصَارٰی۱؎اﷲ تعالٰی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ کراچی، ۱/ ۱۷۷)
اقول:  وَالْمِرْزَائِیۃ لَعَنَھُمْ لَعْنًا کَبِیراً(میں کہتا ہوں کہ مرزائیوں پر بھی بڑی لعنت ہو)
اوّلاً  :  اَنْبِیائِھِمْ ۲؂میں اضافت استغراق کے لئے نہیں کہ موسٰی سے یحیٰی علیہما الصلوٰۃ والسلام تک ہر نبی کی قبر کو یہود و نصارٰی سب نے مسجد کرلیا ہو، یہ یقینا غلط ہے،
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ کراچی، ۱/ ۱۷۷)
جس طرحوَقَتْلِھِمُ الْاَنْبِیاء بِغَیر حَقٍّ۳؂(۳؂القرآن الکریم ۴/ ۱۵۵)
(انہوں نے انبیاء کو ناحق شہید کیا۔ت) میں اضافت ولام کوئی استغراق کا نہیں کہ نہ سب قاتل اور نہ سب انبیاء شہید کئے، قال اﷲ تعالٰی:ففریقاکذبتم وفریقا تقتلون۴؂
(۴؂القرآن الکریم ۲/ ۸۷)
(انبیاء کے ایک گروہ کو تم نے جھٹلایا اور ایک گروہ کو قتل کرتے ہو۔ت) اور جب استغراق نہیں تو بعض میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا داخل کرلینا ادّعائے باطل و مردود ہے، یہود کے سب انبیاء نصارٰی کے بھی انبیاء تھے، یہود و نصارٰی کا ان میں بعض قبورِ کریمہ کو (مسجد بنا لینا) صدقِ حدیث کے لئے بس اور اس سے زیادہ مرتدین کی ہوس۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں یہ اشکال ذکر کر کے کہ نصارٰی کے انبیاء کہاں ہیں، ان کے تو صرف ایک عیسٰی نبی تھے ان کی قبر نہیں، ایک جواب یہی دیا جو بتوفیقہ تعالٰی ہم نے ذکر کیا کہ:اوالمراد بالا تخاذ اعم من ان یکون ابتداعًا او اتباعًا فالیہود ابتدعت والنصارٰی اتبعت، ولا ریب ان النصارٰی تعظم قبور کثیر من الانبیاء الذین تعظمھم الیہود
۵؎انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا نا عام ہے کہ ابتداً ہو یا کسی کی پیروی میں، یہودیوں نے ابتداء کی اور عیسائیوں نے پیروی کی، اور اس میں شک نہیں کہ نصارٰی بہت سے ان انبیاء کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں جن کی یہودی تعظیم کرتے ہیں۔
(۵؎ فتح الباری شرح صحیح بخاری، کتاب الصلٰوۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۴۴۴)
ثانیا امام حافظ الشان (ابن حجر) نے دوسرا جواب یہ دیا کہ اس روایت میں اقتصار واقع ہوا، واقع یہ ہے کہ یہود اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد کرتے اور نصارٰی اپنے صالحین کی قبروں کو، ولہٰذا صحیح بخاری حدیث ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں دربارہ قبور انبیاء تنہا یہود کا نام ہے:ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال قاتل اﷲ الیھود اتخذوا قبور انبیائھم مساجد ۱؎فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ا ﷲ تعالٰی یہودیوں کو ہلاک فرمائے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔
(۱؎صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی۔۱/ ۶۲)
اور صحیح بخاری حدیث اُم سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا میں جہاں تنہا نصارٰی کا ذکر تھا صرف صالحین کا ذکر فرمایا، انبیاء کا نام نہ لیا کہ:قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اولٰئک قوم اذا مات فیھم العبد الصالح اوالرجل الصالح بنوا علٰی قبرہ مسجداً وصَوَّرُوْا فیہ تلک الصُّوَر ۲؎رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا نصارٰی وہ قوم ہے کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں تصویریں بناتے۔
(۲؎صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ، قدیمی کتب خانہ ،کراچی۔۱/ ۶۲)
اور صحیح مسلم حدیث جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں یہود و نصارٰی دونوں کو عام تھا انبیاء و صالحین کو جمع فرمایا کہ:سمعت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم وصالحیھم مساجدا۳؎میں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیتے تھے۔ ہمیشہ جمع طرق سے معنی حدیث کا ایضاح ہوتا ہے۔
(۳؎صحیح مسلم کتاب المساجد، باب : النہی عن بناء المسجد علی القبور، قدیمی کتب خانہ، کراچی ۱/ ۲۰۱)
ثالثاً اقول چالاکی بھی سمجھئے! یہ فقط قبرِ عیسٰی ثابت کرنا نہیں بلکہ اس میں بہت اہم راز مضمر ہے، قادیانی مدعیِ نبوت تھا اور سخت جھوٹا کذاب جس کے سفید چمکتے ہوئے جھوٹ وہ محمدی والے نکاح، اور انبیاء کے چاند والے بیٹے قادیان و قادیانیہ کے محفوظ از طاعون رہنے کی پیشین گوئیاں وغیرہا ہیں، اور ہر عاقل جانتا ہے کہ نبوت اور جھوٹ کا اجتماع محال، اس سے قادیانی کا سارا گھر ہر عاقل کے نزدیک گھروندا ہوگیا اس لئے فکر ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو معاذ اﷲ جھوٹا ثابت کریں کہ قادیانی کذاب کی نبوت بھی بن پڑے، اس کا علاج خود قادیانی نے اپنے ازالہ اوہام ص ۶۲۹ پر یہ کیا کہ ایک زمانے میں چار سو نبیوں کی پیشگوئی غلط ہوئی اور وہ جھوٹے، یہ اس مرتدکے اکٹھے چار سو کفر کہ ہر نبی کی تکذیب کفر ہے، بلکہ کروڑوں کفر ہیں کہ ایک نبی کی تکذیب تمام انبیاء اﷲ کی تکذیب ہے، قال اﷲ تعالٰی:کذبت قوم نوح ن المرسلین۴؂ (۴؂القرآن الکریم ۲۶/ ۱۰۵)
(نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ت) تو اس نے چار سو ہر نبی کی تکذیب کی، اگر انبیاء ایک لاکھ (عہ۱)چوبیس ہزار ہیں۱؎ تو قادیانی کے چار کروڑ چھیانوے لاکھ کفر، اور اگر دو لاکھ(عہ۲) چوبیس ہزار۲؎ ہیں تو یہ اس کے آٹھ کروڑ چھیانوے لاکھ کفر ہیں، اور اب ان مرزائیوں نے خود یا اسی سے سیکھ کر اندارج کفر میں اور ترقی معکوس کر کے اسفل سافلین پہنچنا چاہا کہ معاذاﷲ معاذاﷲ سید المرسلین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کا جھوٹ ثابت کریں، اس حدیث کے یہ معنے گھڑے کہ نصارٰی نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قبر کو مسجد کر لیا، یہ صریح سپید جھوٹ ہے، نصارٰی ہر گز مسیح کی قبر ہی نہیں مانتے اسے مسجد کر لینا تو دوسرا درجہ ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ دیکھو مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ( کے دشمنوں) نے (خاک بدہنِ ملعونان) کیسی صریح جھوٹی خبر دی پھر اگر ہمارا قادیانی نبی جھوٹ کے پھنکے اڑاتا تھا تو کیا ہوا قادیانی مرتدین کا اگر یہ مطلب نہیں تو جلد بتائیں کہ نصارٰی مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر کب مانتے ہیں، کہاں بتاتے ہیں، کس کس نصرانی نے اس قبر کو مسجد کر لیا جس کا مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ذکر کیا، اس مسجد کا روئے زمین پر کہیں پتا ہے؟ ان نصرانیوں کا دنیا کے پردے پر کہیں نشان ہے؟ اور جب یہ نہ بتا سکو اور ہرگز نہ بتا سکو گے تو اقرار کر و کہ تم نے محمد رسو ل اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ذمّے معاذاﷲ دروغ گوئی کا الزام لگانے کو حدیث کے یہ معنی گھڑے اور:ان الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والاٰخرۃ واعدّلھم عذابًا مھینا۱؂ (۱؂القرآن الکریم ۳۳/ ۵۷)
(بیشک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲ کی لعنت دنیا اور آخرت میں اور اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ت) کی گہرائی میں پڑے الا لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین، کیوں، حدیث سے موت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر استدلال کا مزا چکّھا؟کذٰلک العذاب ولعذاب الاٰخرۃاکبر لو کانوا یعلمونo۲؂( واﷲ تعالٰی اعلم) (۲؂القرآن الکریم ۶۸/ ۳۳)
(مار ایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے۔ت)
( واﷲ تعالٰی اعلم)کتبہ العبد المذنب
احمد رضا البریلوی عفی عنہ
بمحمد ن المصطفٰی
صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم۔
عہ۱:کما رواہ احمد وابن حبان والحاکم والبیھقی وغیر ھم عن ابی ذرو ھٰؤلاء وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۱۲ منہ غفرلہ (م) (جیسا کہ احمدابن حبان، حاکم، بیہقی وغیر ہم نے ابو ذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے نیز انہوں نے اور ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابی امامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۱۲ منہ غفرلہ۔ت)
عہ۲:کما فی روایۃ علٰی ما فی شرح عقائد النسفی للتفتازانی قال خاتم الحفاظ لم اقف علیھا ۱۲ منہ غفرلہ (م) (جیسا کہ دوسری روایت میں ہے جس کو علامہ تفتازانی نے شرح عقائد نسفی میں ذکر فرمایا، خاتم الحفاظ نے فرمایا میں اس پر واقف نہیں ہوا ۱۲ منہ )
(۱؎مسند احمد بن حنبل، حدیث ابو امامۃ الباہلی، دارالفکربیروت، ۵/ ۲۶۶)
(
۲؎شرح عقائد النسفی داراشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان، ص ۱۰۱)
(بحوالہ فتاوا رضویہ ،جلد 15)